پاکستان کیخلاف آپریشن کی قیادت سے قبل بھی وہ کئی قابل ذکر کارنامے انجام دے چکی ہیں ،سپریم کورٹ بھی ان کی خدمات کا معترف
EPAPER
Updated: May 09, 2025, 11:28 AM IST | New Delhi
پاکستان کیخلاف آپریشن کی قیادت سے قبل بھی وہ کئی قابل ذکر کارنامے انجام دے چکی ہیں ،سپریم کورٹ بھی ان کی خدمات کا معترف
ہندوستانی فوج کی تاریخ میں کئی نام ایسے ہیں جنہوں نے اپنی بہادری، قائدانہ صلاحیت اور انتھک محنت سے اس کا وقار بلند کیا ہے۔ انہی درخشاں ناموں میں سے ایک کرنل صوفیہ قریشی بھی ہیں جنہوں نے نہ صرف ہندوستانی خواتین کے لئے فوج میں آگے بڑھنے کا راستہ ہموار کیا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کا نام روشن کیا ہے۔ پاکستان کے خلاف گزشتہ دنوں آپریشن سیندور کی قیادت کرکے انہوں نے نہ صرف ایک اور بڑا کارنامہ انجام دیا بلکہ اس کے ذریعے وہ پورے ملک کی ہیرو بن گئی ہیں۔ اس وقت ان کا چرچا گھر گھر ہو رہا ہے۔ مختلف شہروں میں گلی محلوں کے نکڑوں پر ، چائے خانوں میں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر اس وقت ان کا ہی ذکر چھایا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ کرنل صوفیہ قریشی وہ پہلی خاتون افسر ہیں جنہوں نے ۲۰۱۶ ءمیں ملٹری آبزرور گروپ کی قیادت کرتے ہوئے نیٹو کے زیر اہتمام ملٹری مشقوں میں ملک کی نمائندگی کی تھی ۔ اردن میں ہونے والی ان مشقوں میں ۱۸؍ ممالک نے حصہ لیا تھا اور کرنل صوفیہ ان تمام میں واحد خاتون کمانڈر تھیں۔ ان مشقوں میں ان کی پیشہ ورانہ قابلیت، مضبوط اعصاب اور حکمت عملی کے انتخاب نے سبھی کو متاثر کیا۔
کرنل صوفیہ کا تعلق گجرات کے شہر بڑودہ سے ہے۔ انہوں نے نیشنل ڈیفنس اکیڈمی سے فوجی تربیت حاصل کی ہے اور ۱۹۹۹ء میں سگنلز کور میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی فیلڈ میں کارکردگی ہمیشہ مثالی رہی ہے۔ انہوں نے کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں میں حساس علاقوں میں خدمات انجام دی ہیں۔ اسی لئے جب فوج نے انہیں آپریشن سیندور کی کمانڈ سونپی تو نہ فوجی انتظامیہ کے ذہن میں کوئی شک تھا اور نہ کرنل صوفیہ کے ذہن میں کوئی شبہ تھا۔ دونوں جانتے تھے کہ اس آپریشن کو کیسے انجام دینا ہے۔
ملک کی نوجوان نسل، بالخصوص نوجوان لڑکیوں کے لئے چند لمحوں میں کرنل صوفیہ قریشی رول ماڈل بن گئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر خصوصاً ان کی ستائش میں کئی پیغامات آرہے ہیں۔ گزشتہ روز وہ متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ٹرینڈ کررہی تھیں۔
حکومت کی حکمت عملی اور انہیں میدان میں اتارنےکی بھی ستائش ہو رہی ہے۔ ٹویٹر اور فیس بک پر خاص طور صوفیہ قریشی کی مدح میں کئی پوسٹس ہیں۔ انہیں پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے ایک ماسٹر اسٹروک کی وجہ سے اس وقت پورے ملک میں گھر گھر پہچانی جانے والی شخصیت بن گئی ہیں۔ واضح رہے کہ صوفیہ قریشی کا تعلق آرمی کے ذریعے ملک کی خدمت کرنے والے خاندان سے ہے۔ ان کے والد اور دادا بھی آرمی میں رہ چکے ہیں جبکہ کچھ دیگر قریبی رشتہ دار بھی آرمی میں ہی ہیں۔وہ آرمی میں شامل ہونے سے قبل اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی تھیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کے لئے درخواست دے دی تھی لیکن آرمی میں بھرتی نکلنے کی وجہ سے وہ اپنی پی ایچ ڈی مکمل نہیں کرسکیں۔ کانگومیں اپنے مشن کے دوران انہوںنے خطرناک ’وارزون ‘ میں خدمات انجام دی ہیں۔ اس دوران وہاں کے صدارتی الیکشن کے انعقاد میںبھی ان کا اہم کردار رہا۔ یوم اقوام متحدہ کے موقع پر انہیں عالمی اعزا ز سے نوازا جاچکا ہے۔ انہوں نے کانگو میں اپنی خدمات کے دوران ایک ۵؍ سالہ بچی کو اس کی ماں سے واپس ملوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ اسی وجہ سے وہ وہاں کی خواتین میں بھی کافی مقبول ہیں۔یہاں تک کہ ملک کا سپریم کورٹ بھی کرنل صوفیہ قریشی کی خدمات اور ان کے کارناموں کا معترف ہے۔ کورٹ نے ۲۰۲۰ءمیں آرمی میں خواتین کو مستقل کمیشن دینے کاجو تاریخی فیصلہ سنایا تھا اس کی وجہ بھی بڑی حد تک کرنل صوفیہ کے کارنامے تھے۔ کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ اگر کرنل صوفیہ قریشی ایک خاتون ہوتے ہوئے مرد فوجیوں کے برابر آرمی کی خدمت انجام دے سکتی ہیں تو پھر کسی کو بھی خواتین کو مستقل کمیشن ملنےپر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے بعد عدالت نے صوفیہ قریشی کے کئی کارناموں کا اپنے تفصیلی فیصلے میں ذکر کیا تھا۔