۵۰۰؍ سال قدیم درگاہ کو مندر ثابت کرنے کی کوشش، مسلمانوں کا سماجی و معاشی بائیکاٹ ، ۵۲۰؍ دنوں سے جاری احتجاج کا بھی اثر نہیں
EPAPER
Updated: June 12, 2025, 11:33 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
۵۰۰؍ سال قدیم درگاہ کو مندر ثابت کرنے کی کوشش، مسلمانوں کا سماجی و معاشی بائیکاٹ ، ۵۲۰؍ دنوں سے جاری احتجاج کا بھی اثر نہیں
احمدنگر سے ۱۵؍ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ’گُہا ‘ نامی گاؤں فرقہ پرستوں کے چنگل میںہے۔ یہاں شرپسند عناصر اس درجہ حاوی ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کررکھا ہے۔گاؤں میں تقریباً ۴؍ہزارکی آبادی میں ۴۰۰؍ مسلمان رہتے ہیں۔ اتنا ہی نہیںاس گاؤں میںواقع حضرت رمضان شاہ باباؒ کی درگاہ جسے کانوبھا رمضان شاہ باباؒ درگاہ بھی کہاجاتا ہے، کو مندر قرار دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ گاند ھی جی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے میدھا کلکرنی،فیروز میٹھی بوروالا، عرفان انجینئر نریندر ڈومبرے، علاء الدین شیخ ، سادھنا ویراڈےاور شردکدم کےہمراہ اپریل کے اخیر میں ’گُہا ‘ گاؤں کا دورہ کیا ، لوگو ںسےملاقات کرکے احوال معلوم کیا اور بدھ کی شب اسلام جمخانہ میں ایک میٹنگ منعقد کرکےاس کی تفصیل بیان کی۔میٹنگ کا اہتما م’ہم بھار ت کے لوگ ‘ نامی تنظیم نے کیا تھا۔
تشار گاندھی نے بتایاکہ ’’ گزشتہ ۱۵؍برس سے حالات کچھ اسی طرح کے ہیںلیکن گزشتہ ۲؍برس میںاس گاؤں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کافی بڑھ گئی ہے۔اسکے باوجود یہ خبر بمشکل عام ہوسکی۔اس گاؤںمیں مسلمانوں کے ساتھ منصوبہ بند طریقے سے زیادتی کی جارہی ہے۔ مقامی لوگوں سے بات کرنے پرمعلوم ہوا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے دوستانہ تھے۔ وہ ایک خاندان کی طرح رہتے تھےمگرفرقہ واریتکے نتیجے میں درگاہ بمقابلہ مندر کا تنازع کھڑا کیا گیا۔‘‘ انہوں نےکہا کہ ’’زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ہندو اور مسلم بھائی چارہ تقریباًختم ہوچکا ہے اور سماجی تانا بانا پوری طرح سے بکھر گیا ہے۔ یہاں حضرت رمضان شاہ باباؒ جسے کانوبھا رمضان شاہ باباؒ درگاہ بھی کہا جاتا ہے،یہ اتحاد و یکجہتی کا مرکزتھی ۔یہ مزار۵۰۰؍ سال سے زیادہ عرصے سے موجود ہے اور۱۸۵۴ کے برطانوی گزٹ میں اس کا اندراج ہے۔ ان تاریخی شواہد کے باوجود ہندوؤں نے اسے کانیف ناتھ کا مندر کہنا شروع کیا۔ مسلمانوں نے درگاہ اور متعلقہ زمین کو احمد آباد وقف بورڈمیں رجسٹر کیا۔اسکے باوجود۲۰۱۰اور۲۰۱۵ء میںدو چھوٹی درگاہوں کو مندروں میں تبدیل کرنے کے بعد مرکزی درگاہ میں کانیف ناتھ کی مورتی نصب کرنے کی بڑی لڑائی شروع ہوئی اور دسمبر۲۰۲۳ء میں فرقہ وارانہ کشیدگی اوربڑھ گئی۔اس وقت پولیس نے مسلمانوں کو گھروں کے اندر رہنے پر مجبور کیا اور ’ہندو جن آکروش‘ مورچہ نکالا گیا ۔ مورچے کے کچھ سرگرم عناصرنے مرکزی درگاہ میں مزار کے سامنے کانیف ناتھ کی مورتی نصب کر دی تب سے یہاں کشیدگی ہے۔‘‘
انہوں نے مزیدبتایا کہ ’’تنازع کا ایک سبب درگاہ سے متصل۴۰؍ ایکڑ زمین اور مسجد ہے۔ غیرقانونی طور پرمستقل آرتی کی جاتی ہے اورمسلمانوں کو ڈرایا جاتا ہے۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ مسلمان مسجد سے متصل کھیتوںمیں کام نہیں کر سکتے، نہ ہی وہ اپنے لگائے ہوئے املی یا نیم کے درختوں کے پتے توڑ سکتے ہیں۔ ہندو وادی تنظیموں کی طرف سےان کا مکمل سماجی و معاشی بائیکاٹ کردیاگیا ہے۔ جو بھی ہندو اسکی خلاف ورزی کرتا ہےاس پر۲۵۰۰؍روپے کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔تنگ آکرتقریباً ۱۴۰؍ خاندانوں میں سے ۱۰؍ خاندان گاؤں چھوڑ چکے ہیں۔انصاف کیلئے مسلمانوں کا ایک دلت تنظیم کی حمایت سے تحصیلدار کے دفتر کے باہر ۵۲۰؍ دنوں سے احتجاج جاری ہے مگر ابھی تک شر پسندوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔ اسکے برخلاف مسلمانوں پرہی عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔‘‘
میٹنگ کی صدارت کرنے والے مولانا سید معین الدین اشرف نےکہا کہ ’’ہم بھارت کے لوگ‘ اور انکی ٹیم کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نےانتہائی اہم اورچشم کشا معلومات فراہم کیں۔بلاشبہ اس پرفوری طور پرکام کرنے اورنفرت کی خلیج کوپاٹنےکی ضرورت ہے۔‘‘میٹنگ میںعارف نسیم خان ، سعید نوری ، سابق رکن اسمبلی وارث پٹھان اورایڈوکیٹ یوسف ابراہانی وغیرہ موجود تھے۔