Updated: May 25, 2025, 12:30 PM IST
| New Delhi
کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے کہاکہ نیتی آیوگ کی گورننگ کونسل کی میٹنگ اس وقت بے معنی ہو جاتی ہے جب حکومت خود سماجی تانے بانے کو توڑنے اور آئینی اداروں کو تباہ کرنے میں مصروف ہو، میٹنگ کو دکھا وا قراردیا، بھگونت مان کا پنجاب کے ساتھ سوتیلے سلوک کا الزام۔
سنیچر کوہوئی نیتی آیوگ کی میٹنگ کا منظر۔ تصویر:پی ٹی آئی۔
کانگریس نے کہا ہے کہ ترقی یافتہ ہندوستان کے اہداف کی پیش رفت پر وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں سنیچر کوہوئی نیتی آیوگ کی گورننگ کونسل کی میٹنگ اس وقت بے معنی ہو جاتی ہے جب حکومت خود سماجی تانے بانے کو توڑنے اور آئینی اداروں کو تباہ کرنے میں مصروف ہو۔ پارٹی نے اس میٹنگ کو توجہ ہٹانے کی بی جے پی حکومت کی ایک اور کوشش قرار دیا ہے۔ کانگریس نے نیتی آیوگ کو اب تک کا سب سے ناکارہ ادارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج جو ترقی یافتہ ہندوستان کے اہداف کی جائزہ میٹنگ منعقد کی جا رہی ہے وہ ایک بار پھر حکومت کی دکھاوا اور توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
کانگریس میڈيا سیل کے انچارج جےرام رمیش نے یہاں جاری پریس بیان میں کہا ’’گورننگ کونسل کی میٹنگ ہو رہی ہے، کہا گیا ہے کہ اس میں ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف کی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔ جب برسراقتدار لوگ اپنے قول و فعل سے سماجی ہم آہنگی کے تانے بانے کو توڑنے میں مصروف ہوں تو یہ کیسا ترقی یافتہ ہندوستان ہو گا۔
بی جے پی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہوں نے سوال کیا ’’جب حکومت کی سہولت کے مطابق پارلیمنٹ، عدلیہ، یونیورسٹیوں، میڈیا اور آئینی اداروں کی خود مختاری کو کچل دیا گیا ہو تو یہ کیسا ترقی یافتہ ہندوستان ہوگا۔ ہندوستان جن اقدار اور آدرشوں کیلئے جاناجاتا ہے، جب ان پر منظم طریقے سے حملہ کیا جارہا ہو تو یہ کیسا ترقی یافتہ ہندوستان ہوگا۔ ملک کی عدم مساوات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہو اور دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوتی جا رہی ہو تو یہ کیسا ترقی یافتہ ہندوستان ہوگا؟ ‘‘ جے رام رمیش نے کہا کہ اگر ملک کے عظیم الشان تنوع کی جان بوجھ کر پامالی کی جائے اور اسے مٹا دیا جائے تو یہ کیسا ترقی یافتہ ہندوستان ہوگا۔ یہ کیسا ترقی یافتہ ہندوستان ہے جہاں نہ صرف آزادی اظہار بلکہ اظہار رائے کے بعد کی آزادی بھی خطرے میں ہے۔ ‘‘
اس دوران نیتی آیوگ کی میٹنگ میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے مرکزی حکومت پر پنجاب کے ساتھ سوتیلا سلوک کرنے کا الزام لگایا۔ بھگونت سنگھ مان نے سنیچر کو یہاں کہا کہ کسی بھی ریاست کے ساتھ اس طرح کا متعصبانہ اور امتیازی سلوک غیر منصفانہ اور ناپسندیدہ ہے۔
بھگونت مان نے یہاں نیتی آیوگ کی گورننگ کونسل کی ۱۰؍ ویں میٹنگ میں حصہ لیتے ہوئے ریاست سے متعلق اہم مسائل اٹھائے اور اس بات کا اعادہ کیا کہ پنجاب کے پاس کسی بھی ریاست کیلئے اضافی پانی نہیں ہے۔ ریاست میں پانی کی نازک صورتحال کے پیش نظر ستلج یمنا(جمنا) لنک (ایس وائی ایل) نہر کے بجائے یمنا-ستلج لنک (وائی ایس ایل) نہر کی تعمیر کے خیال پر زور دیتے ہوئے مان نے کہا کہ دریائے راوی، بیاس اور ستلج میں پہلے ہی پانی کم ہے اور اضافی پانی کا رخ کم بیسن علاقوں میں موڑ دیا جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب نے یمنا کے پانی کی تقسیم کیلئے مذاکرات میں شامل کئے جانے کی بارہا درخواست کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ۱۲؍ مارچ ۱۹۵۴ء کو اس وقت کے پنجاب اور اتر پردیش کے درمیان یمنا-ستلج-لنک پروجیکٹ کیلئے ایک معاہدہ ہوا تھاجس کے تحت اس وقت کے پنجاب کو یمنا کے دو تہائی پانی پر حق ملا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس معاہدے میں یمنا کے پانی سے سیراب ہونے والے کسی مخصوص علاقے کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنظیم نو سے پہلے راوی اور بیاس کی طرح یمنا ندی بھی اس وقت کی ریاست پنجاب سے ہوکر بہتی تھی۔ تاہم پنجاب اور ہریانہ کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کے دوران یمنا کے پانی پر غور نہیں کیا گیا جبکہ راوی اور بیاس کے پانی کو مناسب طریقے سے مدنظر رکھا گیا۔
مرکزی حکومت کے آبپاشی کمیشن کی ۱۹۷۲ء کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب (۱۹۶۶ء کے بعد اس کی تنظیم نو) دریائے یمنا بیسن میں آتا ہے۔ اس لئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگر دریائے راوی اور بیاس کے پانی پر ہریانہ کا دعویٰ ہے تو پنجاب کا بھی یمنا کے پانی پر برابر کا دعویٰ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ان درخواستوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمنا ندی پر ذخیرہ ڈھانچے کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے پانی ضائع ہو رہا ہے۔ انہوں نے درخواست کی کہ اس معاہدے میں ترمیم کرتے ہوئے پنجاب کے دعوے پر غور کیا جائے اور پنجاب کو جمنا کے پانی پر اس کا حق دیا جانا چاہئے۔