عبدالرحمٰن انتولے جیسا وزیر اعلیٰ دینے والے خطے میںپارٹی اس بار کسی بھی سیٹ پر الیکشن نہیں لڑ رہی ہے، صرف حلیفوں کی تشہیر کرے گی
EPAPER
Updated: October 30, 2024, 11:44 PM IST | Siraj Shaikh | Alibagh
عبدالرحمٰن انتولے جیسا وزیر اعلیٰ دینے والے خطے میںپارٹی اس بار کسی بھی سیٹ پر الیکشن نہیں لڑ رہی ہے، صرف حلیفوں کی تشہیر کرے گی
مہاوکاس اگھاڑی کی سیٹوں کی تقسیم میں کانگریس کو کوکن میں کوئی سیٹ نہیں ملی۔ اس طرح اس اسمبلی الیکشن میں کانگریس کا کوئی نام ونشاں نہیں ہے۔اس لئے اب خطے میںپارٹی کا کام صرف اپنے حلیفوں کی تشہیر کرنا رہ گیا ہے۔ یاد رہے کہ کوکن کے کئی لیڈر کانگریس کی پہچان رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم نام سابق وزیر اعلیٰ عبدالرحمٰن انتولے کا ہے۔ ان کے علاوہ نانا صاحب کنٹے، گووند راؤ نکم، نشی کانت جوشی، چندرکانت دیشمکھ، ایس بی سوات، ٹی پاٹل، حسین دلوائی اور بھاسکر سولے کا ریاست میں پارٹی کے فروغ میں بڑا تعاون رہا ہے۔ لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ پارٹی کے پاس خطہ میں کوئیقیادت نہیں ہے۔
رائے گڑھ کانگریس نے مطالبہ کیا تھا کہ ضلع کے۷؍ اسمبلی حلقوں میں سے ۳؍ سیٹوں پر پارٹی کو امیدواری دی جائے۔ رتناگیری اور سندھو درگ اضلاع کی صورتحال آس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ رتناگیری کے ۵؍ اسمبلی حلقوں میں سے ایک بھی سیٹ کانگریس کے حصے میں نہیں آئی ہے۔ راجا پور حلقہ سے کانگریس کے اویناش لاڈ امیدوار ی کے خواہشمند تھے۔ لیکن یہاں شیوسینا ( ادھو)کے موجودہ رکن اسمبلی راجن سالوی کو ٹکٹ ملا ہے۔ اس سے ناراض ہو کر لاڈ نے بغاوت کر دی اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے پرچہ داخل کر دیا۔سندھو درگ ضلع میں نارائن رانے کی بی جے پی میں شمولیت کے بعد کانگریس کا اثر کم ہو نے لگا۔ اس کے پاس پارٹی کو آگے لے جانے کیلئے کوئی قیادت باقی نہیں رہی۔ رائے گڑھ، رتناگیری اور سندھو درگ کے تین اضلاع میں کل ۱۵؍ حلقے ہیں۔ رائے گڑھ میں ۷؍، رتناگیری میں ۵؍ اور سندھو درگ ضلع میں ۳؍۔
@مایوس کارکنا ن کا استعفیٰ @
رائے گڑھ میں حال یہ ہے کہ کارکنان نے اجتماعی طور پر استعفیٰ دیدیا ہے۔ ان کا کہنا ہے’’ہم نے کانگریس پارٹی سے لوک سبھا انتخابات میں نامزدگی کیلئے کہا تھا لیکن ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔ اب اسمبلی انتخابات میں بھی ہمیں ایک بھی حلقہ نہیں ملا ۔ اسلئے ہم نے کارکنان کااجلاس بلایا اورضلع میں اجتماعی طور پر مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
@۲۰؍ سال میںکانگریس کا زوال
رائے گڑھ میں ۲۰۰۴ء؍ کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کے ۴؍ اراکین اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ شیتکری کامگار پکش اور کانگریس ضلع کی بڑی پارٹیا ں سمجھی جاتی تھیں لیکن ۲۰۰۹ءکے انتخابات کے بعد پارٹی زوال پذیر ہونے لگی۔ رام شیٹھ ٹھاکر، پرشانت ٹھاکر، رویندر پاٹل جیسے سینئر لیڈر پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ علی باغ کے مدھوکر ٹھاکر اور مہاڈ میں مانکراؤ جگتاپ کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی ا سنیہل جگتاپ شیو سینا ٹھاکرے گروپ میں شامل ہوگئیں۔ بیرسٹر اے۔ آر انتولے کے بعد کوئی ایسی قیادت نہیں ہے جو پارٹی کو مضبوطی عطا کر سکے۔