Inquilab Logo

اکثریت نواز طاقتوں کامقابلہ اقلیتی حقوق کےتحفظ سے ہی ممکن ہے

Updated: March 04, 2023, 1:54 PM IST | New Delhi

الیکشن کمشنر کی تقرری سے متعلق تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ کی ۵؍ رکنی آئینی بنچ نے ملک کے موجودہ حالات پر تشویش کااظہار کیا، عوام کی ’جمہوری پسند ‘ کے تحفظ کیلئے الیکشن کمیشن کی آزادی اور مکمل خود مختاری کو ناگزیر بتایا ،متنبہ کیا کہ انتخابی عمل کا مسلسل استحصال جمہوریت کو قبر تک پہنچانے کا سبب بن جائے گا

A 5-member bench led by Justice KM Joseph heard the case related to the Election Commission
جسٹس کے ایم جوزف جن کی قیادت میں ۵؍ رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن سے متعلق مقدمہ کی سماعت کی

 سپریم کورٹ نے ملک میں  الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار حکومت سے چھین کر  وزیراعظم ، چیف جسٹس آف انڈیا اور اپوزیشن لیڈر پر مشتمل سہ رکنی کمیٹی کو سونپنے کاجمعرات کو جو تاریخی فیصلہ سنایا، اس  میں  ملک  کے  موجودہ  حالات  پر تشویش کااظہار کرتے ہوئےسماج کو آئینہ بھی دکھایا گیا  ہے اوراصلاحات کیلئے ضروری اقدامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔  جسٹس  کے ایم جوزف، اجے رستوگی،انیرودھ بوس، رشی کیش رائے اور سی ٹی روی کمار پر مشتمل  ۵؍ رکنی آئینی بنچ نے  ۳۷۸؍ صفحات پر مشتمل   فیصلے میں دوٹوک لہجے میں کہا ہے کہ   اکثریت نوازی کے رجحان سے جمہوریت کو لاحق خطرات  سے  مقابلہ کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کی مکمل آزادی اور خود مختاری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عوام کی’ جمہوری پسند‘ کے تحفظ کیلئے یہ ناگزیر ہے۔ کورٹ نے متنبہ کیا کہ انتخابی عمل کا مسلسل استحصال جمہوریت کی قبر کھودنے کے مترادف ہے۔ 
اکثریت نوازی کا مقابلہ ضروری
  جسٹس کے ایم جوزف کی قیادت والی  بنچ نے  یاد دہانی کرائی  ہے کہ ’’ملک میں جمہوریت کی بنیاد رکھنےو الے ہمارے اجداد  نہ صرف ہندوستان کیلئے جمہوری  زندگی اور جمہوری طرز حکمرانی    چاہتے تھے بلکہ ان کا مقصد ہندوستان کو’ ڈیموکریٹک ریپبلک‘ بنانا  تھا۔ فیصلے میں وضاحت کی گئی ہے کہ’ریپبلک ‘کی عمومی تعریف ایسی حکومت ہے جس میں سربراہ حکومت کی تقرری  انتخاب  کے ذریعہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے کہا کہ ’’ہماری  جمہوریت کے’ریپبلکن کردار‘ کا مطلب یہ بھی ہے کہ ملک کی  اکثریت آئین کے میں دیئے گئے حقوق کا تحفظ کرے اوراس کے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہے۔‘‘  پانچ رکنی بنچ نے کہا کہ’’جمہوری عمل کے ذریعہ حاصل کی گئی  غیر معمولی اکثریت کوآئینی تحفظات کے موافق ہونا چاہئے جس کیلئے آئینی اخلاقیات کی پاسداری لازمی ہے۔ڈیموکریٹک ریپبلک میں  ضروری  ہے کہ اکثریت نواز طاقتوں کا جو بھلے ہی جمہوریت عمل  کے مطابق ہوں، کا مقابلہ ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرکے کیا جانا چاہئے جن کے پاس جمہوریت نہیں ہے۔‘‘ کورٹ نے واضح  کیا  ہے کہ ’’جب ہم اقلیت کی بات کرتے ہیں  تو اسے  مذہبی یا لسانی اقلیتوں تک محدود نہیں سمجھنا چاہئے۔‘‘کورٹ نے کہا کہ اس کیلئے بھی آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ 
انتخابی عمل کا استحصال جمہوریت کو دفن کردیگا
  جسٹس کے ایم جوزف کی قیادت والی آئینی بنچ نے کہا کہ جمہوریت کا مرکزی اصول یہ ہے کہ  بیلٹ کی شکل میں   طاقت  ہمیشہ عوام کے پاس رہے، اقتدار کے حصول کا مقصد صرف حکومت چلانا ہونا چاہئے۔کورٹ نے کہا کہ ’’ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حکومت آئین کے طے کردہ اصولوں اور قوانین کے مطابق چلانی چاہئے ۔ کورٹ نے کہا کہ ’’جمہوری طریقہ کو صرف اور صرف اقتدار کے حصول کا ذریعہ نہیں ہونا چاہئے...جمہوریت میں  اقتدار کا حصول  قانون و آئین کے مطابق  اور پوری ایمانداری  سے ہونا چاہئے۔‘‘ سپریم کورٹ نے متنبہ کیا کہ ’’(ورنہ) انتخابی عمل کا طویل عرصے تک بلا روک ٹوک استحصال جمہوریت کو قبر تک پہنچا دینے کا یقینی راستہ بن جائےگا۔‘‘
بیلٹ بندوق سے بھی زیادہ طاقتور
 سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے انتخابی عمل اوراس کے غیر جانبدار رہنے کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ  ’بیلٹ کو بندوق‘ سے بھی زیادہ طاقتور قراردیا۔ کورٹ نے کہا کہ ’’جمہوریت  پر امن انقلاب کی راہ ہموار کرتی ہے۔اگر انتخابات آزادانہ اور غیر جانبدارانہ طریقے سے منعقد ہوں تو بیلٹ عام آدمی کے ہاتھ میں   بندوق سے بھی زیادہ طاقتور  ہتھیار ہے۔ ‘‘
 میڈیا  پوری بے شرمی  سے جانبداری کا مظاہرہ کررہاہے
 اپنے فیصلے میں کورٹ نے انتخابی عمل میں پیسوں کے اہم رول پر بھی کورٹ نے تشویش کااظہار کیا ساتھ ہی میڈیا کے طرز عمل پر بھی  فکرمندی کااظہار کیا۔ کورٹ کے مطابق’’سیاست میں  جرائم پیشہ عناصر کی اپنے تمام غلط عزائم کے ساتھ شمولیت،  ایک تلخ حقیقت ہے۔ عوام کا اعتماد اس عمل (الیکشن)   جس پر جمہوریت کی بنیاد ہے، متزلزل ہوچکاہے۔‘‘ آئینی بنچ نے کہا کہ ’’ پیسوں کی طاقت اور میڈیا کے چند حلقے جس طرح الیکشن پر اثر انداز ہوتے ہیں، وہ اس بات ضروری کردیتے ہیں کہ الیکشن کمیشن  جسے اس کورٹ نے ملک کے شہریوںا وران کے بنیادی حقوق کا محافظ قراردیاہے، کی تقرری کا معاملہ ایسی اہمیت اختیار کرلیتا ہے کہ اسے مزید نہیں  ٹالا  جاسکتا۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK