• Fri, 19 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عدالت نے اڈانی گروپ کے خلاف مضامین اور ویڈیوز ہٹانے کا حکم کالعدم قرار دیا

Updated: September 19, 2025, 4:51 PM IST | Agency | New Delhi

دہلی کی روہنی کورٹ نے کہا کہ سول جج کو صحافیوں کے موقف کی سماعت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں سنانا چاہئے تھا ،گزشتہ روز ہی آزاد صحافیوںکو نوٹس جاری کرکے ویڈیو ز ڈیلیٹ کرنے کو کہا گیا ہے۔

Adani Group Chairman Gautam Adani. Photo: INN
اڈانی گروپ کے سربراہ گوتم اڈانی۔ تصویر: آئی این این

دہلی کی روہنی عدالت نے جمعرات کو چار صحافیوں کو’توہین آمیز‘ مضامین اور ویڈیوز ہٹانے کے  یکطرفہ حکم کو کالعدم قرار دے دیا۔یہ اپیل صحافی روی نائر، ابیر داس گپتا، آیاسکانت داس اور آیوش جوشی نے دائر کی تھی۔ ڈسٹرکٹ جج آشیش اگروال نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ مضامین طویل عرصے سے عام دسترس میں موجود ہیں اور سول جج کو چاہیے تھا کہ وہ صحافیوں کا موقف سنے  بغیر اس طرح کا حکم نہ دیتے۔حج نے کہاکہ  میری رائے میں سول جج کو یہ موقع دینا چاہئے تھا کہ مدعا علیہان اپنا موقف پیش کرتے۔ کیونکہ اگر بعد میں یہ مضامین غیر توہین آمیز قرار پائے تو ان کا دوبارہ شائع ہونا ممکن نہ ہوگا۔ اسی لیے یہ حکم قابلِ عمل نہیں ہے۔ اپیل منظور کی جاتی ہے اور سابقہ حکم کالعدم قرار دیا جاتا ہے، تاہم اس عدالت کی جانب سے کیس کے میرٹ پر کوئی رائے نہیں دی جا رہی ہے۔‘‘
 یاد رہے کہ ۶؍ستمبر کو روہنی کورٹ کے ایک سول جج نے اڈانی گروپ کی درخواست پر مبینہ توہین آمیز مواد ہٹانے کا حکم دیا تھا جس کے بعدگزشتہ روز ہی  وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ۱۲؍ نیوز اداروں اور آزاد صحافیوں کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ یہ مواد ڈیلیٹ کریں۔ اس پر کافی ہنگامہ اور تنقیدیں بھی ہوئی تھیں۔ 
 صحافیوں کی جانب سے پیش ہونے والی سینئر وکیل ایڈوکیٹ  ورندا گروور نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ’’اکثر مضامین جون ۲۰۲۴ء سے پبلک ڈومین میں موجود ہیں۔ پھر اچانک ایسی ایمرجنسی کیوں پیدا ہو گئی کہ دو دن کا نوٹس بھی نہ دیا گیا؟ سول جج نے تو’’بلینکٹ آرڈر‘‘ جاری کر دیا جس کے نتیجے میں سیکڑوں ویڈیوز اور پوسٹس ہٹا دی گئیں۔‘‘انہوں نے کہاکہ کیا اس ملک میں کوئی قانون ہے جو پریس کو یہ حکم دے کہ آپ کسی ادارے پر سوال نہیں اٹھا سکتے؟ یہ تو آزادیٔ اظہارِ رائے پر براہِ راست حملہ ہے۔
 دوسری جانب اڈانی انٹرپرائز کے وکیل وجے اگروال نے کہا کہ صحافیوں نے جان بوجھ کر گروپ کے خلاف منظم مہم چلائی ہے اور ہر ٹویٹ، ری ٹویٹ اور لائک بھی دوبارہ اشاعت کے مترادف ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کئی مضامین ہنڈن برگ رپورٹ پر مبنی ہیں جبکہ سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اڈانی گروپ کی کوئی غلطی ثابت نہیں ہوئی۔اسی دوران صحافی پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا کی جانب سے دائر درخواست پر بھی عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
  دریں اثناءپریس کلب آف انڈیا نے اس سلسلے میں بیان جاری کیاکہ یہ عدالتی فیصلہ تشویشناک ہے، کیونکہ اس سے بڑے کارپوریٹ اداروں کو میڈیا پر بے لگام سینسرشپ مسلط کرنے کا اختیار مل جائے گا۔ یہ آزادیٔ صحافت پر کاری ضرب ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK