امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ یوکرین-روس جنگ پران دنوں روس پر دباؤ بنانے کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہیں اور اس کیلئے نے انہوں نے روس کے قریب سمندروں میں جوہری آبدوزتک تعینات کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
EPAPER
Updated: August 04, 2025, 1:27 PM IST | Agency | Washington
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ یوکرین-روس جنگ پران دنوں روس پر دباؤ بنانے کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہیں اور اس کیلئے نے انہوں نے روس کے قریب سمندروں میں جوہری آبدوزتک تعینات کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ یوکرین-روس جنگ پران دنوں روس پر دباؤ بنانے کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہیں اور اس کیلئے نے انہوں نے روس کے قریب سمندروں میں جوہری آبدوزتک تعینات کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ روس سے تیل خریدنے پرپہلے ٹرمپ نے ۳۰؍جولائی کو ہندوستان پر۲۵؍فیصد ٹیرف اور جرمانہ لگانے کا اعلان کیا تھا۔ اس درمیان ٹرمپ روس پر تجارتی پابندی بھی عائد کرنے والے ہیں ۔ اس بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے ذریعے روس پر تجارتی پابندی کے بعد خام تیل کی قیمت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ قیمت ۱۲۰؍ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے۔ آئل مارکیٹ کے ماہرین نے نیوز ایجنسی ’اے این آئی‘ کو بتایا کہ بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی کشیدگی، خاص طور پر یوکرین-روس جنگ کے تعلق سے ٹرمپ کے ذریعے روس کو دی گئی وارننگ سے تیل سپلائی پر اثر پڑسکتا ہے۔ وینٹورا میں کموڈٹیز اور سی آر ایم کے سربراہ این ایس راماسوامی نے کہا کہ برینٹ تیل (خام تیل کی ایک قسم) کی قیمت اکتو بر۲۰۲۵ء تک ۷۶؍ ڈالر فی بیرل کا ہدف ہے جو۶۹؍ ڈالر کے سپورٹ لیول سے نیچے بھاری گراوٹ کو چھوڑ کر۲۰۲۵ء کے اخیر تک ۸۲؍ ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ ڈبلیو ٹی آئی کروڈ ستمبر ۲۰۲۵ء تک ۶۹ء۲۵؍ ڈالر سے بڑھ کر۷۶؍تا۷۹؍ ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تشویشناک صورتحال ٹرمپ کے ذریعہ روس کے ساتھ تجارت جاری رکھنے والے ممالک پر نئی پابندیوں اور۱۰۰؍فیصد ٹیرف کے اعلان سے پیدا ہوئی ہے۔ ایسے میں روس سے تیل خریدنے والے ملک براہ راست متاثر ہو سکتے ہیں۔ سینئر انرجی ایکسپرٹ نریندر تنیجا نے کہا کہ روس عالمی معیشت میں روزانہ ۵۰؍لاکھ بیرل تیل برآمد کرتا ہے۔ اگر اس میں رکاوٹ آتی ہے تو خام تیل کی قیمت ۱۰۰؍ سے ۱۲۰؍ ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے۔ چونکہ ہندوستان روس سے۳۵؍سے۴۰؍ فیصد تیل درآمد کرتا ہے اس لئے قیمت میں اضافے کا اثر ہندوستان پر بھی پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ۴۰؍ سے زائد ممالک سے درآمد ہونے کی وجہ سے ہندوستان کو سپلائی میں کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن صارفین کو قیمتوں میں اضافہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہندوستان کی ریفائنری کمپنیاں رعایتی روسی تیل پر منحصر ہیں جس نے ۲۰۲۲ء سے گھریلو مہنگائی کی شرح کو متوازن کرنے میں مدد کی ہے۔
اگر ہندوستان کی یہ کمپنیاں پابندی کے بعد بھی درآمدات کرتی ہیں تو انہیں جرمانے اور بہت زیادہ ٹیرف کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے پیٹرول ڈیزل اور ایل پی جی کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ سبزی، پھل، دودھ اور اشیائے خور و نوش بھی مہنگی ہو سکتی ہیں، کیونکہ خام تیل کی قیمت میں اضافے سے ٹرانسپورٹ کی لاگت بڑھے گی۔ پلاسٹک، کیمیکل، سیمنٹ، اسٹیل اور دیگر انڈسٹریز میں اِن پُٹ لاگت بڑھنے کی وجہ سے تعمیرات، الیکٹرانکس اور ٹیکسٹائل کی صنعتیں متاثر ہوں گی۔ بس، ٹرک، آٹو اور ٹیکسی کا کرایہ بڑھ سکتا ہے اور ای-کامرس ڈیلیوری بھی مہنگی ہو سکتی ہے۔