’لینڈ جہاد‘ کا نیا شوشہ بھی چھوڑا گیا۔ زمینوں پر قبضہ کرکے مذہبی ادارے قائم کرنے کا الزام۔ ریلی سے سیاسی پارٹیوں کا تعلق نہ ہونے کا دعویٰ لیکن بی جے پی اورشیوسینا شندے گروپ سے کئی لیڈران شریک ہوئے۔ سنگھ پریوار نے بھیڑ اکٹھا کرنے کیلئے طاقت جھونک دی۔ ہندولڑکیوں کومتنبہ کیا کہ ’دھرم چھوڑ کر جائوگی۔۔ٹکڑوں میں کاٹی جائوگی‘
دادر میں بھگواتنظیموں کی ریلی کا منظر۔ (تصویر:شاداب خان)
: بھگوا تنظیموں کے ذریعہ مذہب کے نام پر سماج میں تفریق پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اتوار کو ممبئی میں ’سکل ہندو سماج‘ نامی تنظیم کے ذریعہ’ہندو جَن آکروش مورچہ‘ نام سے ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں ’’لوجہاد‘ کے خلاف قانون بنانے اوراسے پورے ملک میں نافذ کرنے کے ساتھ ہی مزید مطالبات بھی کئے گئے۔ ان مطالبات کی آڑ میں ’لینڈ جہاد‘ کا نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے جس میں زمینوں پر ناجائز قبضوں کے ذریعہ مذہبی ادارے بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
اگرچہ بی جے پی رکن اسمبلی پروین دریکر نے اس مظاہرے کے تعلق سے دعویٰ کیا کہ اس مظاہرے سے کسی بھی سیاسی پارٹی کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن کئی بی جے پی اور شیوسینا شندے گروپ سے تعلق رکھنے والے لیڈران اور ممبران اس میں نظر آئے۔ اس ریلی کا ایک مقصد مستقبل قریب میں ہونے والے بی ایم سی الیکشن کے لئے طاقت کا مظاہرہ کرنا بھی بتایا جارہا ہے اس لئے ریلی میں بھیڑ جمع کرنے کے لئے سنگھ پریوار نے اپنی پوری طاقت جھونک دی اور مختلف مقامات سے لوگوں کو اس میں شرکت کیلئے لایا گیا۔ ریلی میں تقریروں اور نعروں کے ذریعہ جم کر زہر افشانی کی گئی۔ اس ریلی میں بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا نے بھی شرکت کی ۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ مرکز کے ساتھ ریاست میں بھی جب ان کی ہی حکومت ہے تو ’لوجہاد‘ قانون بنانے میں انہیں کیا دقت پیش آرہی ہے؟ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ سماج صرف قاعدے قانون سے نہیں چلتا، لوگوں میں بیداری لانے کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور جو لوگ یہ کام کررہے ہیں۔ ان کا دماغ ٹھکانے لانے کیلئے بھی یہ ریلی نکالی گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قانون ضرور لایا جائے گا لیکن ان موضوعات پر عوام کی سوچ کے اظہار کے لئے ریلی نکالی گئی ہے۔
ہندو جن آکروش مختلف ہندو تنظیموں کی یونین ہے اور شردھا والکر نامی ایک لڑکی کے اس کے عاشق آفتاب پونا والا کےہاتھوں دہلی میں بہیمانہ قتل اور پھر لاش کے ٹکڑے کرکے ضائع کرنے کے کیس کو بنیاد بنا کر ’لوجہاد‘ نام سے سخت قانون بنانے اوراسے نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اسی کیس کی بنیاد پر اس ریلی کی تشہیر بھی ہندو لڑکیوں کو اس تنبیہ سے کی گئی تھی کہ ’دھرم چھوڑ کر جائوگی۔۔ٹکڑوں میں کاٹی جائوگی‘۔
شردھا کا قتل ۲۰۲۲ء میں ہوا تھا اور گزشتہ چند ماہ کے دوران ’لوجہاد‘ قانون کیلئے مہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں تقریباً ۳۰؍ ریلیاں نکالی جاچکی ہیں۔ ان ریلیوں میں مفروضہ ’لوجہاد‘ کے علاوہ مفروضہ ’لینڈ جہاد‘ (زمین کیلئے جہاد) کا نیا شوشہ بھی چھوڑا گیا ہے۔ اتوار کو نکالی گئی ریلی میں مالونی ملاڈ، آرے، سیوڑی، چمبور اور دیگر علاقوں میں واقع سرکاری زمینوں پر مبینہ ناجائز قبضوں کو ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔یہ ریلی اتوار کو صبح دادر میں واقع شیواجی پارک سے نکالی گئی اور پریل میں واقع کامگار میدان پر ختم ہوئی جس میں بی جے پی، بجرنگ دل، آرایس ایس، وشو ہندو پریشد، سمبھاجی بھڑے کی شیو پرتشٹھان نامی تنظیم، ہندو جن جاگرتی سمیتی، سناتن سنستھا اور دیگر تنظیموں کے لیڈران اور ممبران نے شرکت کی۔
واضح رہے کہ مفروضہ ’لوجہاد‘ کے متعلق عوام میں یہ زہر گھولا جارہا ہے کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو لالچ سے یا محبت کے جال میں پھنساکر ان سے شادی کرکے ان کامذہب تبدیل کرواتے ہیں اور شادی کے بعد انہیں مختلف قسم کی اذیتیں دیتے ہیں حتیٰ کہ ان کا قتل بھی کردیتے ہیں۔
اس ریلی کے مد نظر ممبئی ٹریفک پولیس نے متعدد سڑکوں کو چند گھنٹوں کیلئے گاڑیوں کی آمد و رفت کیلئے بند کرکے دیگر راستوں پر موڑ دیا تھا اور پولیس کی بھاری جمعیت تعینات کی گئی تھی۔