یورپی اور جاپانی پارلیمان میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا پرزور مطالبہ، اقوام متحدہ میں نیویارک اعلامیہ پر ووٹنگ کیلئے اجلاس، شرکاء نے غزہ میں فوری جنگ بندی پر زور دیا۔
EPAPER
Updated: September 13, 2025, 4:38 PM IST | Agency | New York/London/Tokyo
یورپی اور جاپانی پارلیمان میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا پرزور مطالبہ، اقوام متحدہ میں نیویارک اعلامیہ پر ووٹنگ کیلئے اجلاس، شرکاء نے غزہ میں فوری جنگ بندی پر زور دیا۔
نیویارک/لندن /ٹوکیو(ایجنسی):بڑھتے اسرائیلی مظالم کے سبب ریاست فلسطین کے حق میںاب عالمی سطح پر دباؤ بنتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جمعہ کو ’’نیویارک اعلامیے‘‘ پر ووٹنگ کیلئے اجلاس بلا یا گیا۔خبر لکھے جانے تک ووٹنگ عمل میں نہیں آئی ہے۔تاہم بتایا گیا ہے کہ آج کے اجلاس کا مقصد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کو ازسرنو فعال بنانا ہے۔ تاہم اس میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ اس اعلامیے کا مسودہ فرانس اور سعودی عرب نے پیش کیا ہے اور اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کی مذمت کی جاتی ہے، جبکہ حماس کے قبضے میں موجود اسرائیلی یرغمالوں کی فوری رہائی پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اعلامیے میں غزہ میں جنگ کے خاتمے، پائیدار امن کے قیام اور دو ریاستی حل پر مؤثر عملدرآمد کی اپیل کی گئی ہے۔اعلامیے کے مطابق جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ میں حماس کی عمل داری ختم کی جائے گی اور اسے اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنا ہوں گے، تاکہ خودمختار فلسطینی ریاست قائم کی جا سکے۔عرب لیگ پہلے ہی اس اعلامیے کی حمایت کر چکی ہے اور اس پر متعدد عرب ممالک سمیت اقوام متحدہ کی ۱۷؍ رکن ریاستوں کے دستخط موجود ہیں۔
خیال رہے کہ ۲۲؍ستمبر کو نیویارک میں سعودی عرب اور فرانس ایک سربراہی کانفرنس میں منعقد کرنے جا رہے ہیں، جس میں ممکنہ طور پر فرانس فلسطینی کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر سکتا ہے۔جبکہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت دیگر ممالک بھی فلسطین کو تسلیم کرسکتے ہیں۔
یورپی پارلیمنٹ میں کیا ہوا؟
یورپی پارلیمنٹ نے جمعرات کو ایک قرارداد منظور کی جس میں یورپی یونین کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ’’ وہ دو ریاستی حل کے حصول کے مقصد سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کریں۔‘‘ یہ قرارداد۳۰۵؍ ووٹوں کی حمایت، ۱۵۱؍ مخالفت اور۱۲۲ء غیر حاضر کے ساتھ منظور ہوئی۔ ووٹنگ طویل اور کشیدہ رہی، اور قرارداد پر حتمی ووٹ ڈالنے سے پہلے، پارلیمنٹ کے اراکین نے غزہ پر ترامیم کے ووٹوں کی جانچ پڑتال کے لیے وقفہ کرنے کی درخواست بھی کی۔قرارداد میں ایک دیگر متنازع نکتہ اسرائیل کے غزہ پر حملوں کیلئے ’’نسل کشی‘‘ کی اصطلاح کا استعمال تھا۔ بالآخر ’’نسل کشی کے اقدامات‘‘کے الفاظ کو مسترد کرتے ہوئے متن سے خارج کر دیا گیا۔
جاپانی قانون سازوں نے عرضداشت جمع کرائی
خبر رساں ایجنسی کیوڈو کے مطابق، جاپانی قانون سازوں کے ایک غیر جانبدار گروپ، جس میں حکمران لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین بھی شامل ہیں، نے وزیر خارجہ ٹیکشی ایوایا کے نام۲۰۶؍ دستخطوں والی ایک عرض داشت جمع کروائی، جس میں حکومت سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایوایا نے بدلے میں کہا کہ ’’میں اسے سنجیدگی سے لے رہا ہوں کیونکہ اس کے لیے اتنے دستخط جمع کیے گئے ہیں، اور وزارت اس معاملے پر مزید غور کرے گی۔‘‘واضح رہے کہ اسرائیل نے فلسطین میں ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے قتل عام مچا رکھا ہے، ساتھ ہی غزہ کی ناکہ بندی نے خطے میں قحط کے حالات پیدا کر دئے ہیں۔اسرائیلی نسل کشی کے نتیجے میں اب تک تقریباً ۶۵؍ ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق یہ تعداد چار گناتک بڑھ چکی ہے۔ اسرائیل کوبین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا سامنا ہے۔
اسرائیل غزہ میں لسانی بنیاد پر نسل کشی میں ملوث : امریکی سینیٹر
امریکی ڈیموکریٹک سینیٹرز نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں لسانی بنیادوں پر نسل کشی میں ملوث ہے۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق۲؍ ڈیموکریٹک سینیٹرز نے غزہ کے دورے سے واپسی پر ایک۲۱؍ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیل کی نیتن یاہو حکومت غزہ میں حماس کے خاتمے سے کہیں آگے جاچکی ہے، غزہ میں فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دی جارہی ہے جس سے ان کی زندگیاں اجیرن ہوگئی ہیں۔ سینیٹر کرس وین ہولین نے کہا کہ ہم نے خود اس بات کا مشاہدہ کیا کہ نیتن یاہو کی حکومت حماس کو دی جانے والی سزا میں غزہ کے عوام کو بھی شامل کرلیا ہے۔ غزہ کے حوالے سے ڈیموکریٹک سینیٹرز کی رپورٹ تحریر کرنے والے دوسرے سینیٹر جیف مرکلی بھی کیپٹل ہل میں رپورٹ پیش کرنے شامل تھے۔
’’۱۱؍ ستمبر کے بعد امریکہ نے جو کیا، وہی اسرائیل غزہ میں کررہا ہے‘‘
ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ایک اسوسی ایٹ لاء پروفیسر نے اناطولیہ کو بتایا کہ اسرائیلی مہم کو غزہ پٹی میں امریکہ کی قیادت والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ایک تسلسل کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ خالد بیضون نے کہا کہ ۱۱؍ ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ میں جو قانونی اور سیاسی ڈھانچہ بنایا گیا، اس نے مسلم شناخت کو مجرمانہ بنا دیا اور ایک ایسا ماڈل فراہم کیا جسے بعد میں امریکہ کے اتحادیوں نے، بشمول اسرائیل نے اپنایا۔۱۱؍ستمبر کے بعد امریکہ نے جو کیا اسرائیل وہی غزہ میں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا:’’اگر امریکی دہشت گردی نہ ہوتی تو اسرائیل اتنی شدت کے ساتھ تشدد کو جاری نہ رکھ سکتا۔بہت سے پہلوؤں سے اس نے اسرائیل کو یہ اجازت دے دی ہے کہ وہ اس طرح کا درد پہنچائے کیونکہ وہ مسلمانوں، عربوں اور فلسطینیوں کوانسان ہی نہیں سمجھتے۔ ‘‘