اڈانی، رستم جی اور وادھوا جیسے بلڈر بھی سامنے آئے۔ دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے بعد سے بڑے بلڈر جھوپڑپٹیوں کی بازآباد کاری میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔
EPAPER
Updated: June 02, 2025, 10:46 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai
اڈانی، رستم جی اور وادھوا جیسے بلڈر بھی سامنے آئے۔ دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے بعد سے بڑے بلڈر جھوپڑپٹیوں کی بازآباد کاری میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔
برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن‘ (بی ایم سی) نے ممبئی کی ۶۴؍ جھوپڑپٹیوں کی باز آباد کاری کیلئے کئی پرانے بلڈروں کو پروجیکٹ سے باہر کردیا ہے اور نئے بلڈروں کو موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے جس میں اڈانی، رستم جی اور وادھوا جیسے بڑے بلڈروں نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اب تک جھوپڑ پٹیوں کی بازآباد کاری میں بڑے بلڈر زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتے تھے لیکن دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے بعد سے حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔
جن ۶۴؍ جھوپڑ پٹیوں کی بازآبادکاری کی جائے گی ان میں لوور پریل، وڈالا، گوونڈی، دنڈوشی، ملاڈ (مشرق)، بوریولی میں واقع شمپولی، گوریگائوں (مشرق) اور گھاٹ کوپر شامل ہیں۔
نئے پروجیکٹ کی بازآبادکاری سرکاری پالیسیوں اور ’ڈیولپمنٹ کنٹرول اینڈ پروموشن ریگولیشن‘ (ڈی سی پی آر-۲۰۳۴) کے تحت کی جائیں گی اور تمام کارروائیاں مثلاً جھوپڑوں کا سروے، ری ڈیولپمنٹ کا پلان تیار کرنا، متعلقہ محکموں سے اجازت حاصل کرنا، باز آباد کاری اور فروخت کیلئے عمارتیں تعمیر کرنا اور تعمیر کے بعد مینٹیننس سنبھالنا وغیرہ ذمہ داری منتخب شدہ بلڈر کی ہوگی۔
بی ایم سی ذرائع کے مطابق ابتداء میں بی ایم سی ہی ان جھوپڑ پٹیوں کی بازآباد کاری میں دلچسپی رکھتی تھی لیکن ’مہاراشٹر ہائوسنگ اینڈ ایریا ڈیولپمنٹ اتھارٹی‘ (مہاڈا) نے ’سلم ری ڈیولپمنٹ اتھارٹی‘ (ایس آر اے) کے تحت آنے والی ان جھوپڑ پٹیوں کی باز آباد کاری کیلئے تعمیر کرنے سے انکار کردیا جس پر بی ایم سی نے اپنے لائحہ عمل میں تبدیلی لاتے ہوئے یہ کام نجی بلڈروں کو سونپنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ البتہ ان پروجیکٹوں کیلئے صرف ان ہی بلڈروں کو موقع دیا جائے گا جو نہ صرف جھوپڑ پٹیوں کی باز آباد کاری کا تجربہ رکھتے رکھتے ہیں بلکہ مالی طور پر اس کام کیلئے مستحکم ہیں اور متعلقہ جگہ کا ۲۵؍ فیصد سے زیادہ پریمیم ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:پہلگام حملے اور آپریشن سیندور پر فرقہ وارانہ سیاست
دھاراوی ری ڈیولپمنٹ کی وجہ سے اڈانی کو ان پروجیکٹوں کا مضبوط دعویدار سمجھا جارہا ہے لیکن اب تک کے تنازعات کی وجہ سے لوگ اڈانی کے نام سے تشویش میں بھی مبتلا ہیں اور ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ جو شرائط عائد کی گئی ہیں ان سے اڈانی کمپنی کو ٹھیکہ ملنے میں آسانی ہوگی۔
بہت سی جھوپڑ پٹیوں کی بازآباد کاری چھوٹے موٹے بلڈروں کے ہاتھ میں تھی اور یہ کام برسوں سے التواء میں تھا لیکن بی ایم سی نے ’ایس آر اے‘ کے تحت ۲/۱۳؍ کا نوٹس جاری کرکے ان بلڈروں کو پروجیکٹ سے باہر کردیا ہے اور نئے سرے سے نئی شرائط کے ساتھ بڑے بلڈروں کو موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی کے تحت بی ایم سی نے ۱۰؍ مئی کو اخبارات میں اشتہار دے کر بلڈروں سے ’ایکسپریشن آف انٹرسٹ‘ (ای او آئی) منگوایا تھا۔ اس کے بعد ۱۴؍ مئی کو بی ایم سی کی ویب سائٹ پر بھی اسے نشر کردیا گیا اور پھر پروجیکٹ شروع ہونے سے قبل ان پر صلاح و مشورہ اور گفتگو کیلئے ۲۳؍ مئی کو دلچسپی رکھنے والے بلڈروں کے ساتھ میٹنگ ہوئی ہے اور ۱۰؍ جون تک انہیں ٹینڈر جمع کرنے کی مہلت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مرحلہ وار قابلیت اور تکنیکی اہلیت رکھنے والوں سے ٹینڈر منگوائیں جارہے ہیں۔
دوسری طرف اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران کا الزام ہے کہ متذکرہ ۶۴؍ پروجیکٹوں کیلئے بی ایم سی کو ایس آر اے کے ’چیف ایگزیکٹیو آفیسر‘ کے اختیارات دے دیئے گئے ہیں جبکہ بی ایم سی کو ایس آر اے پروجیکٹ اور جھوپڑ پٹیوں کی بازآباد کاری کا تجربہ نہیں ہے اس لئے یہ ذمہ داری بی ایم سی کو نہیں دی جانی چاہئے تھی۔