ممبئی کے آس پاس کے علاقوں میں گزشتہ ۵؍ سال میں ۲۱؍ ہزار لڑکیاں ۵؍ویں کلاس سے ۱۰؍ ویں کلاس تک نہیں پہنچ سکیں۔
لڑکیوں کے تعلیم ترک کرنے کی الگ الگ وجوہات ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تصویر:آئی این این
ممبئی کے آس پاس کے اضلاع میں تعلیم کی سطح میں اضافہ ہوا ہے لیکن لڑکیوں کی تعلیم میں بتدریج گراوٹ کی تلخ حقیقت سامنے آئی ہے۔ گزشتہ ۵؍ برسوں کے اعدادوشمار کےمطابق تھانے اورپال گھر ضلع میں ۲۱؍ہزارلڑکیاں ڈراپ آئوٹ ہوئی ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات میں معاشی حالات، ہجرت، گھریلو ذمہ داریاں، صحت کے مسائل، اسکول جانے کے راستے میں عدم تحفظ اور بالخصوص دیہی اور قبائلی علاقوں میں کم عمری کی شادی کی روایت شامل ہیں۔
واضح رہےکہ ایک طرف حکومت لڑکیوں کی تعلیم کیلئے مختلف اسکیموں کو نافذ کرنے کادعویٰ کر رہی ہے۔ دوسری جانب مذکورہ اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق صورتحال نے محکمہ تعلیم کی کارگردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کردیئے ہیں۔ گزشتہ ۵؍برسوں کے اعدادوشمار کےمشاہدے میں چونکادینےوالی تصویر سامنے آئی ہے۔ ڈراپ آئو ٹ کر جانے والی یہ وہ طالبات ہیں ، جنہوں نے پانچویں میں داخلہ لیا لیکن وہ دسویں جماعت تک نہیں پہنچ سکیں۔ اگرچہ کچھ برسوں میں نویں جماعت میں طالبات کی تعداد میں تھوڑا اضافہ ہوا ہے، لیکن مجموعی رجحان میں کمی آ رہی ہے۔
تھانے ضلع میں ۲۰۔۲۰۱۹ءمیں پانچویں،چھٹی ، ساتویں ، آٹھویں ،نویں اور دسویں جماعتوںمیں بالترتیب ۷۴؍ہزار ۳۶۱؍، ۷۲؍ہزار ۶۶۵؍، ۷۱؍ہزار ۱۰۵؍، ۶۴؍ہزار ۸۳۵؍ ، ۶۵؍ہزار ۳۳۳؍ اور ۶۱؍ہزار۹۱۲؍طالبات تھیں لیکن اب ان جماعتوں میں لڑکیوں کی تعداد تقریباً ۱۲؍ ہزار کم ہوگئی ہے۔اسی طرح پال گھر کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔ مذکورہ سال اور جماعتوںمیں طالبات کی بالترتیب تعداد ۳۷؍ہزار ۸۱۸؍، ۳۶؍ ہزار ۶۱۰؍،۳۵؍ہزار ۶۶۰؍، ۳۲؍ہزار ۷۹۶؍، ۳۰؍ہزار ۴۵۵؍ اور ۲۸؍ہزار ۳۸۳؍ تھی ،اب ان کی تعداد تقریباً ۹؍ ہزار کم ہوگئی ہے۔
خیال رہےکہ ریاستی حکومت زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو اسکول لانے کیلئے اسکالرشپ، یونیفارم، سائیکل اسکیم اور مڈ ڈے میل جیسی اسکیمیں نافذ کررہی ہےلیکن ان اعدادوشمار سے یہ واضح ہے کہ ان اسکیموں کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہورہےہیں۔سماجی اداروںاور کارکنوںکےمطابق لڑکیوںکو تعلیم کی جانب متوجہ کرنےکیلئے صرف سرکاری اسکیمیں ناکافی ہیں۔ اس کیلئے والدین کے نفسیاتی فکر کو بدلنے ، اسکول میں حفاظتی اقدامات بڑھانے اور مقامی سطح پر بیداری مہم چلانےکی ضرورت ہے۔ دراصل ان میں سے بعض لڑکیاں شہر سے کہیں اور منتقل ہو گئی ہیں۔ جبکہ بعض کو والدین نے اس لئے اسکول سے نکال لیا کہ ان کی مالی حالت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ وہ بیٹی کی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔