یہ بھی الزام لگایا کہ اجراء کی تقریب سے قبل کئی دنوں تک اورنگ آباد سٹی پولیس کی جانب سے منتظمین کو مسلسل فون کالز، دباؤ، اور خوفزدہ کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔
کتاب کے رسم اجراء کے موقع پر مصنف اور دیگر شرکاء دیکھے جاسکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این
ممبئی ٹرین بلاسٹ کیس میں باعزت بری ہونے والے احتشام صدیقی کی خود نوشت ’’ہارساگا‘‘ کاا جراء اورنگ آباد میں گزشتہ سنیچر کو عمل میں آیا۔ منتظمین نے الزام لگایا کہ پولیس نے انہیں بلاوجہ پریشان کیا اور ڈرانے و دھمکانے کی کوشش کی۔
اورنگ آباد چیپٹر، انوسنس نیٹ ورک کے زیرِ اہتمام اجرائی تقریب حاجی ہاؤس کے قریب، وی آئی پی روڈ پر واقع ’بیت الیتیم‘ میں منعقد کی گئی تھی۔ جس میں مہمانانِ خصوصی احتشام صدیقی(مصنف ہارر ساگا)، محسن احمد ( سابق کارپوریٹر و سماجی کارکن) شارق نقشبندی (ایڈیٹر، ایشیا ایکسپریس) فیصل خان( سماجی کارکن)، ڈاکٹر عبد الواحد شیخ مصنف بےگناہ قیدی، ڈاکٹر ظفر احمد خان (سابق اپوزیشن لیڈر، اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن )و دیگر تھے۔
منتظمین نے ارسال کردہ پریس ریلیز میں دعویٰ کیا کہ اجراء کی تقریب سے قبل کئی دنوں تک اورنگ آباد سٹی پولیس کی جانب سے منتظمین کو مسلسل فون کالز، دباؤ، اور خوفزدہ کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ پولیس افسران نے باربار منتظمین سے رابطہ کر کے پروگرام نہ ہونے کا دباؤ ڈالا اور حتیٰ کہ مقام کے مالک سے بھی تفتیش کی۔ اس کے باوجود، منتظمین نے مکمل قانونی طریقے سے تقریب کا انعقاد کیا۔تقریب کے دن پولیس کی ایک ٹیم مقام سے تقریباً۲۰۰؍ میٹر دور تعینات رہی، جو آنے والے مہمانوں کو روک کر ان کے نام، پتے اور شرکت کی وجوہات پوچھتی رہی۔ جن لوگوں نے بتایا کہ وہ کتاب کی تقریب کیلئے آئے ہیں، ان سے کہا گیا کہ یہ ’خطرناک پروگرام‘ ہے اور اس میں شامل افراد ’عام لوگ نہیں ہیں‘ بلکہ ’بلاسٹ کے ملزمین‘ ہیں۔ کئی مدعو مہمان اس غیرقانونی رویّے سے خوفزدہ ہو کر واپس لوٹ گئے۔ اس کے باوجود تقریب میں تقریباً۵۰؍ افراد شریک ہوئے، اور پروگرام پُرامن طور پر رات۱۰؍ بجے اختتام پزیر ہوا
منتظمین نے بتایا کہ پولیس نے کسی قسم کی ایف آئی آر، تحریری حکم یا نوٹس جاری نہیں کیا۔ یہ تمام کارروائی بغیر کسی قانونی جواز کے کی گئی، جو آزادیٔ اظہار، انجمن سازی اور اجتماع کے بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مقررین نے ایک آواز میں احتشام صدیقی اور دیگر بےگناہ قیدیوں پر۱۹؍ سالہ ظلم کی مذمت کی، ان کی بازآبادکاری اور معاوضے کا مطالبہ کیا، اور عوام سے اپیل کی کہ وہ ’ہارر ساگا‘ پڑھیں تاکہ ریاستی ایجنسیوں کے استحصالی نظام کو سمجھ سکیں۔تقریب میں عوامی شرکت خاصی نمایاں رہی۔ کتاب کے تمام نسخے فوراً فروخت ہو گئے اور مقامی چیپٹر نے اعلان کیا کہ عوامی دلچسپی کے پیش نظر مزید نسخے جلد فراہم کئے جائیں گے۔
انوسنس نیٹ ورک انڈیا نے کہا کہ پولیس کی اس دھمکی آمیز مداخلت کی شدید مذمت کرتا ہے۔ یہ رویّہ طاقت کے ناجائز استعمال اور آزادیِ اظہار کو دبانے کی بدنما مثال ہے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ:پولیس کمشنر، اورنگ آباد، فوری طور پر واقعے کی محکمانہ انکوائری شروع کریں۔ ملوث افسران کو معطل کر کے عوام کے سامنے جوابدہ بنایا جائے۔ مہاراشٹر حکومت اور اس کے انٹیلی جنس ادارے قانونی اور پُرامن تقریبات میں مداخلت بند کریں۔عبدالواحد شیخ نے کہا کہ ’’میں نے اس ہراسانی اور دباؤ کے خلاف پولیس کمشنر، اورنگ آباد کو تحریری شکایت بھی ارسال کی ہے۔پولیس کو چاہیے کہ وہ ان ناانصافیوں سے سبق سیکھے جنہوں نے ہارر ساگا کو جنم دیا، نہ کہ ان شہریوں کو ہدف بنائے جو آئینی حدود میں رہ کر انصاف کی بات کرتے ہیں۔
’’ہارر ساگا‘‘ کیا ہے ؟
نامی کتاب جیل کی یادداشتوں پر مبنی (قید خانہ کی خودنوشت) ہے۔ اسکے مصنف احتشام صدیقی ہیں جو۱۱؍۷ممبئی ٹرین بلاسٹ کیس کے۱۳؍ ملزمین میں شامل تھے اور جنہیں ۲۰۱۵ء میں خصوصی مکوکا عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔ تاہم،۱۹؍ سال قید ناحق کے بعد انہیں ۲۱؍ جولائی۲۰۲۵ء کو بامبے ہائی کورٹ نے باعزت بری کر دیا۔یہ کتاب ۲۰۱۸ء میں ناگپور سینٹرل جیل کے پھانسی یارڈ میں لکھی گئی، جس میں۲۰۰؍ منظوم ’بلاد ballad ‘کے ذریعے قید، اذیت، تنہائی اور تفتیشی ایجنسیوں کے ظلم و ستم کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ یہ تصنیف ظلم، جھوٹے مقدمات، اور ریاستی زیادتی کے خلاف ایک ادبی احتجاج ہے۔ سرکاری رکاوٹوں کے بعد یہ کتاب ۲۰۲۴ء میں فارس میڈیا سے شائع ہوئی اور اب عام دستیاب ہے، بشمول ایمیزون پر۔