تاجروں کے بقول ٹرانسپورٹیشن اور دیگر اخراجات کے سبب دام بڑھ جاتے ہیں ۔ دیونار منڈی میںایک لاکھ ۴۷؍ہزاربکروں میں سے ۸۲؍ہزار۶۲۵؍بکرے اب بھی موجود ہیں
EPAPER
Updated: June 03, 2025, 10:52 PM IST | Mumbai
تاجروں کے بقول ٹرانسپورٹیشن اور دیگر اخراجات کے سبب دام بڑھ جاتے ہیں ۔ دیونار منڈی میںایک لاکھ ۴۷؍ہزاربکروں میں سے ۸۲؍ہزار۶۲۵؍بکرے اب بھی موجود ہیں
بکروں کی قیمتیں آسمان پرہیں۔گاہک دیونار منڈی کا چکر لگاکر تھک جاتے ہیں پھر کہیں انہیں اپنے بجٹ میںپسند کاجانور ملتاہے۔موجودہ وقت میں تاجروں کو امید ہے کہ انہیں بہتر قیمت ملے گی اوران کا ممبئی کاسفر منافع بخش ثابت ہوگا تو گاہکوں کو دام کم ہونے کا انتظار ہے۔ حالانکہ قربانی میںاب زیادہ وقت نہیں بچا ہے۔ سنیچر۷؍جون کوبقرعید ہوگی اس لحاظ محض تین دن بچے ہیں۔ اس کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ دیونار منڈی میں ایک لاکھ ۴۷؍ہزار۷۶۹؍ بکروں میں سے ۸۲؍ ہزار ۶۲۵؍ بکرے اب بھی موجود ہیںمگر تاجر من مانے انداز میں دام بتا رہے ہیں۔ انہیں یہ اندازہ ہے کہ ابھی بقرعید میں تین دن ہیں، اچھی قیمت مل سکتی ہے۔ دیونار منڈی کے مذکورہ اعداد وشمار ۴؍ جون شام ۶؍بجے تک کے ہیں۔
گاہکوں کی زبانی
عبدالرحمٰن نام کے نوجوان نے بتایاکہ’’دیونار میں کئی گھنٹے گھومنے کے بعد ایک بکرا پسند آیا مگردام سن کرہوش اڑگئے۔ بکرا ۶۰؍ کلو سے زائد وزن کا ہوگا۔ میںاس کی قیمت ۲۵؍ہزار روپے سمجھ رہا تھا مگر تاجر نے ۴۱؍ہزار روپے بتائے۔ کافی دیر تک بات چیت کرنے کےبعد بڑی مشکل سے وہ ۳۰؍ ہزار روپے میں دینے کے لئے تیار ہوا، مطلب ۵۰۰؍ روپے کلوکے حساب سے پڑا ۔ اس سےاندازہ کیاجاسکتا ہے کہ دیونار میں بکرے کتنے مہنگے ہیں۔‘‘
ایک دوسرے گاہک محمود احمدخا ن نے بتایاکہ ’’ میںاپنے دوست کے ساتھ دیونار گیا ۔ کچھ دیرگھومنے کے بعدہم لوگ ایک بکرے کے پاس کھڑے ہوئے۔ اسے دیکھ کراندازہ ہوا کہ کافی وزن ہے۔ چونکہ اتنی حیثیت بھی نہیںتھی اورنہ ہی اسے لینا تھا مگردام تو پوچھ لیا۔ تاجرنے ڈھائی لاکھ روپے بتائے تو ہم دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے اوربکرےکی ایک تصویر لے کر آگے بڑھ گئے۔‘‘
ایک اورگاہک حافظ مسعودالرحمٰن نے بتایاکہ’’ دیونار...د یونار کی رٹ لگائی جاتی ہے اور ایسا باور کرایا جاتا ہے کہ کافی سستے جانور وہاںمنڈی میں مل جاتے ہیںجبکہ حقیقت یہ ہے کہ دیونار منڈی میںجانور خریدنا آسان نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بیوپاری کچھ بھی دام بتارہے ہیں۔ شاید ان کے ذہن میںہے کہ ابھی بقرعید کے تین دن باقی ہیں ،ان کے بکرے تو فروخت ہو ہی جائیں گے ۔ اس لئے جو لوگ کہہ رہے ہیںکہ قیمتیں آسمان پر ہیں،وہ غلط نہیں ہے۔ یہاں واقعی جانوروں کے دام زیادہ لگ رہے ہیں ‘‘
تاجروں نے مسائل بتائے اورجانوروں کے مہنگے ہونے کاحوالہ دیا
کچھ تاجروں سےبات چیت کرنے پران کا کہنا تھا کہ عام دنوں میںگوشت ۷۵۰؍روپے سے ۸۰۰؍روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے، قربانی کے جانور کو سال بھرپالا جاتا ہے، ان کا ہرطرح سے خیال رکھا جاتا ہے جس سےبہت خرچ ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ہی قربانی کے دنوں میں جانوروں کو لانے کے لئے ٹرانسپورٹ خرچ کافی بڑھ جاتا ہے ۔اس طرح جانور اورمہنگے ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام خرچ شامل کرتے ہوئے تاجر جانور فروخت کرتے ہیں۔ پھرانہیں کچھ نفع بھی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی کے جانور مہنگے ہوجاتے ہیں۔‘‘
دی بامبے مٹن ڈیلرس اسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری شہنواز تھانہ والا نے ایک اہم نکتے کی جانب توجہ دلائی اوربتایا کہ ’’ قربانی میں بکروں کو لانے والی گاڑیوں کا خرچ کافی بڑھ جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی کے بکرے بڑے ہوتے ہیں، زیادہ جگہ لیتے ہیں،پھر انیمل ضابطے کوبھی ملحوظ رکھناپڑتا ہے ورنہ راستے میں پریشان کیا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نےیہ بھی بتایاکہ ’’ جانوروں کولانے والی گاڑیاں وہی رہتی ہیںجو عام دنوں میں بکروں کے لانے میںاستعمال کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی کےایام میںان گاڑیوں کا کرایہ جو عام دنوں میں۷۰؍ ۸۰؍ہزارروپے ہوتا ہے قربانی میںبڑھ کر ایک لاکھ ۴۰؍ ہزار روپے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے، تاجر یہ تمام خرچ بکرا فروخت کرنے میںشامل کرتے ہیں جس سےقیمت زیادہ ہوجاتی ہے،اسی وجہ سے قربانی کے جانور مہنگے ملتے ہیں ۔‘‘