ایس آئی آر کے بعد شائع کی گئی حتمی ووٹر لسٹ سے نکالےگے ۳ء۶۶؍ لاکھ ووٹرس کی تفصیل طلب،۲۱؍ لاکھ ’’نئے ووٹرس‘‘ کے تعلق سے بھی کنفیوژن دور کرنے کی ہدایت
EPAPER
Updated: October 07, 2025, 11:47 PM IST | New Delhi
ایس آئی آر کے بعد شائع کی گئی حتمی ووٹر لسٹ سے نکالےگے ۳ء۶۶؍ لاکھ ووٹرس کی تفصیل طلب،۲۱؍ لاکھ ’’نئے ووٹرس‘‘ کے تعلق سے بھی کنفیوژن دور کرنے کی ہدایت
بہار میں ایس آئی آر کے معاملے میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کو منگل کو پھر سپریم کورٹ میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ عدالت نےاسے۹؍ اکتوبر تک حتمی ووٹر لسٹ سے نکالے گئے ۳ء۶۶؍ لاکھ ووٹرس کی تفصیل فراہم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ساتھ ہی نئے شامل کئے گئے ۲۱؍ لاکھ ووٹرس کے تعلق سے اس کنفیوژن کو بھی دور کرنے کی ہدایت دی ہے۔ کورٹ نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیاکہ یہ واضح نہیں ہے کہ ۲۱؍ لاکھ نئے ووٹرس نئے ہیں یا پھر وہ ہیں جن کے نام عبوری ووٹر لسٹ سے خارج کردیئے گئے تھے اورانہوں نے نئے سرے سے فارم بھر کر اور ثبوت فراہم کرکے اپنا نام شامل کروایا ہے۔ کورٹ نے پورے عمل میں شفافیت پر زور دیا اور کہا کہ اگر کسی کا انتقال ہوگیا ہےتو ٹھیک ہے لیکن اگرآپ کسی کا نام کاٹ رہے ہیںتو آپ کو رُول ۲۱؍ اور ضوابط کی پیروی کرنی چاہئے۔ عدالت نے اپنا سابقہ حکم یاد دلایا کہ جس کا نام بھی کاٹا جارہاہے،اس کی تفصیل الیکشن کمیشن اپنے ڈیٹا بیس میں اپ لوڈ کرے۔
کمیشن سےسپریم کورٹ کے سوالات
جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوائے مالیا باغچی کی بنچ نے ایس آئی آر کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے دریافت کیا کہ فائنل ووٹر لسٹ میں جوڑے گئے نام پہلے ہٹائے گئے ناموں میں سے ہیں یا نہیں؟ عدالت نے یہ بھی سوال کیا کہ کیا ہٹائے گئے رائے ہنددگان اپیل دائر کرسکتے ہیں؟
مسلم ووٹرس کے ناموں کا اخراج
اس دوران ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے استدلال کیاکہ ایس آئی آر کی وجہ سے خاتون اور مسلم ووٹرس کا غیر متناسب اخراج ہوا ہے۔ اس لسٹ کو واضح کرنے کے بجائے اس عمل نے مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔ انھوںنے کہاکہ کمیشن نے رائے دہندگان کے نام ہٹانے کی وجہ نہیں بتائی اور مسودہ لسٹ جاری کرنے کے بعد ہٹائے گئے ۶۶ء۳ ؍لاکھ رائے دہندگان کی لسٹ جاری نہیں کی۔ دوسری جانب سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے عدالت کے اس سوال پر کہ کیا ہٹائے گئے ووٹر اپیل دائر نہیں کرسکتے، پر کہا کہ وجہ معلوم کئے بغیر وہ اپیل دائر نہیں کرسکتے اور ہٹائے گئے ناموں کی کوئی لسٹ بھی جاری نہیں کی گئی ۔
نام ہٹانےسے قبل اطلاع نہیں دی گئی
انھوںنے کہاکہ جن لوگوں کے نام ہٹائے جاتے ہیں انھیں اس کی اطلاع نہیں ملتی اور نہ وجہ بتائی جاتی ہے۔ تو اپیل کا تو کوئی سوال ہی نہیں، کیونکہ کسی کو پتا ہی نہیں ہوتا ،کم ا ز کم اطلاع تو دے ہی سکتے ہیں۔اس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش ہونےوالےسینئر ایڈوکیٹ راکیش دویدی نے کہاکہ ہٹائے گئے لوگوں کو ہدایت دی گئی ہے ۔ اس جواب پر عدالت نے کہاکہ اگر کوئی ان ۳ء۶۶؍ لاکھ رائے دہندگان میں سے ان رائے دہندگان کی لسٹ دے سکتا ہے جنھیں ہدایت نہیں ملی ہے تو ہم الیکشن کمیشن کو ہدایت دینے کا حکم دیں گے تاہم سبھی کو اپیل کرنے کا حق ہے۔
کمیشن کوسماجی تنظیموں کے رول پر اعتراض
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہاکہ متاثرہ رائے دہندگان میں سے کسی نے بھی عدالت سے رجوع نہیں کیا ہے ، صرف دہلی میں بیٹھے سیاسی لیڈران اور غیر سرکاری تنظیم ہی اس ایشو کو اٹھا رہے ہیں۔ نیز عرضی گزاروںنے ستمبر میں جاری فائنل لسٹ کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ اس پر ایڈوکیٹ بھوشن نے کہاکہ وہ سیکڑوں لوگوں کو لاسکتے ہیں۔ایڈوکیٹ سنگھوی نے بھی کہاکہ الیکشن کمیشن کے ذریعہ نام جاری کئے بغیر یہ پتا لگا نا ممکن نہیں ہے کہ کن لوگوں کے نام ہٹائے گئے اور کن کے نام شامل کئے گئے ۔ مسودہ جاری ہونے کے بعد ۶۵؍ لاکھ لوگوں کے نام ہٹائے گئے جبکہ فائنل لسٹ کے وقت کمیشن نے کہاکہ اس نے ۲۱؍ لاکھ رائے دہندگان کو جوڑا ہے۔ اب یہ واضح نہیں ہے کہ یہ نئے جوڑے گئے لوگ ان رائے دہندگان میں سے تھے جن کے نام شروع میں ہٹائے گئے ،یا بالکل نئے لوگ ہیں۔
عدالت نے ایڈوکیٹ سنگھوی کی اس دلیل سے اتفاق کرتے ہوئے کہاکہ اس معاملہ میں لوگوںکو شبہ ہے۔ اس پر کمیشن نے جواب دیا کہ زیادہ تر نئے رائے دہندگان کو جوڑ ا گیا ہے۔ جسٹس کانت نے صاف طور پر کہاکہ یہ ایک بھٹکتی ہوئی جانچ نہیں لگنی چاہئے ،اگر ہم پہلی نظر میں مطمئن ہیں تو حکم جاری کرسکتے ہیں۔ اب اس معاملہ پر ۹ ؍ اکتوبر کو سماعت ہوگی۔