بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ چین ، ہندوستان اور امریکہ سمیت عالمی برا دری سے روہنگیا مسلمانوں کو ’کا کس بازار‘ سے’ راکھینے‘ بھیجنے میں مدد کیلئے درخواست کرچکی ہیں
EPAPER
Updated: September 19, 2022, 1:26 PM IST | Agency | Dhaka
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ چین ، ہندوستان اور امریکہ سمیت عالمی برا دری سے روہنگیا مسلمانوں کو ’کا کس بازار‘ سے’ راکھینے‘ بھیجنے میں مدد کیلئے درخواست کرچکی ہیں
ر۵؍ سال گزر جانے کے بعد بھی بنگلہ دیش کے کاکس بازار کے خستہ حال کیمپوں میں غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنے والے روہنگیامسلمانوں کیلئے اپنے وطن لوٹنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ ان کیلئے اپنے آبائی وطن جانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ واضح رہےکہ گزشتہ ماہ روہنگیا پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے پانچ سال مکمل ہوگئے ہیں۔ یہ تارکین وطن میانمار کی فوج کے مظالم سے بچنے کیلئے بنگلہ دیش پہنچے تھے۔اس دوران ایک بڑی تعداد نے اپنا بہت کچھ گنوا دیا تھا، ایک بڑی تعداد کے خاندان کے اکثر افرادلقمۂ اجل بن گئے تھےاور وہ کسی طرح جان بچا کر کا کس بازار پہنچے تھے، تب سے یہیں مقیم ہیں ۔ دوسری طرف بنگلہ دیش انہیں میانمار بھیجنے کیلئے مختلف سطح پر کوششیں کررہا ہے۔ قبل ازیں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ چین ، ہندوستان اور امریکہ سمیت عالمی برا دری سے روہنگیامسلمانوں کو ’کا کس بازار‘ سے ’راکھینے‘ بھیجنے میں مدد کیلئے درخواست کرچکی ہیں ۔ گزشتہ دنوں بنگلہ دیش نے کہا تھا کہ ملک میں ۱۰ ؍لاکھ سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینوں کا گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے کیمپوں میں طویل ہوتا ہوا قیام ڈھاکہ کی سلامتی اور استحکام کیلئے باعث تشویش ہے۔ ان کے مطابق اپنے مصائب کے علاوہ ہمسایہ ملک میانمار سے آئے ہوئے روہنگیا پناہ گزینوں کی طویل موجودگی بنگلہ دیش کی معیشت، ماحولیات، سلامتی، سماجی اور سیاسی استحکام پر سنگین اثرات مرتب کر رہی ہے۔وزیراعظم حسینہ واجد نے زور دے کہا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کی ان کے ’وطن واپسی‘ ہی اس بحران کا واحد حل ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ اور بنگلہ دیش کی مشترکہ میزبانی میں علاقے کے ۲۶ ؍ ممالک سے تعلق رکھنے والے فوجی حکام کا سہ روزسمینار ڈھاکہ میں ہوا تھا۔ اس دوران شریک ممالک کی فوجیں آفات سے نمٹنے کے طریقہ کار، بین الاقوامی جرائم، سلامتی کے مسائل اور خواتین کو خودکفیل بنانے جیسے امور پر تبادلۂ خیال کر رہی تھیں جبکہ بنگلہ دیش اس فورم میں بھی میانمار سے تشدد کی وجہ سے جان بچا بھاگ کر آنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کے مسئلے کو اجاگر کر نے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس دوران ہندوستان ، چین ،امریکہ، کناڈا، آسٹریلیا، جاپان، انڈونیشیا اور ویتنام کے نمائندوں نے کاکس بازار میں قائم بڑے روہنگیا پناہ گزین کیمپوں کا دورہ کیا تھا ۔بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل ایس ایم شفیع الدین احمد نے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ سمینار کے شرکاء کو کاکس بازار ضلع کے کیمپوں میں اس لئے لے جایا جارہا ہے تاکہ ان پر تارکین وطن کے بحران کی سنگینی واضح کی جا سکے اور یہ بتایا جا سکے کہ تارکین وطن کی میانمار واپسی کیوں ضروری ہے؟اس وقت بنگلہ دیش مجموعی طور پر ۱۰؍ لاکھ سے زیادہ روہنگیا تارکین وطن کی میزبانی کر رہا ہے۔ خیال رہے کہ بنگلہ دیشی حکام چین کی ثالثی میں ہونے والے دو طرفہ معاہدے کے تحت روہنگیا تارکین وطن کو میانمار واپس بھیجنے کی دو مرتبہ ناکام کوشش کرچکےہیں۔
روہنگیا مسلمان کہتے ہیں کہ بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریتی آبادی والے ان کے ملک میانمار میں حالات انتہائی خطرناک ہیں اور وہاں انہیں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش انہیں اپنے ملک سے نکالنا چاہتا ہے اور انہیں اُن کے وطن بھیجنا چاہتا ہے ۔ ایسے میں ان کی میں مشکلات بڑھتی ہی جارہی ہیں،حالانکہ شیخ حسینہ کہہ چکی ہیں کہ ڈھاکہ ان تارکین وطن کو واپس میانمار جانے پر مجبور نہیں کرے گا۔ روہنگیا بحران کو عالمی عدالتوں میں لے جایا جا چکا ہے لیکن میانمار نے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی بد سلوکی اور تشدد کے الزامات سے انکار کیا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ امریکہ روہنگیا پناہ گزینوں اور میانمار کے تمام شہریوں کیلئے انصاف اور احتساب کے عمل کو آگے بڑھانے کا عزم رکھتا ہے۔