۹؍ سال قبل۸؍ نومبر ۲۰۱۶ء کی وہ رات تھی جب وزیر اعظم مودی رات میں ۸؍ بجے قوم سے خطاب کرنے ٹی وی پر آئے تھےاور۵۰۰؍نیز ایک ہزار روپے کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ وہ و قت اور اس وقت کیاگیا اعلان آج بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے
EPAPER
Updated: November 09, 2025, 2:09 PM IST | New Delhi
۹؍ سال قبل۸؍ نومبر ۲۰۱۶ء کی وہ رات تھی جب وزیر اعظم مودی رات میں ۸؍ بجے قوم سے خطاب کرنے ٹی وی پر آئے تھےاور۵۰۰؍نیز ایک ہزار روپے کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ وہ و قت اور اس وقت کیاگیا اعلان آج بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے
۹؍ سال قبل۸؍ نومبر ۲۰۱۶ء کی وہ رات تھی جب وزیر اعظم مودی رات میں ۸؍ بجے قوم سے خطاب کرنے ٹی وی پر آئے تھےاور۵۰۰؍نیز ایک ہزار روپے کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ وہ و قت اور اس وقت کیاگیا اعلان آج بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس فیصلے نے نہ صرف بازار اور بینکنگ نظام کو ہلا کر رکھ دیا تھا بلکہ عام شہریوں کی روزمرہ زندگی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ شہریوں نے دن دن بھر قطاروں میں کھڑے کر نوٹ تبدیل کروائے تھے ۔ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس قدم کا مقصد کالا دھن، دہشت گردی کی فنڈنگ اور جعلی کرنسی پر قابو پانا ہے۔۹؍ سال گزرنے کے بعد بھی یہ سوال باقی ہےکہ کیا نوٹ بندی سے حکومت اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی ؟
ہندی نیوز پورٹل ’آج تک‘ پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق، سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بند کئے گئے۱۵ء۴۴؍ لاکھ کروڑ روپے میں سے تقریباً۱۵ء۳۱؍ لاکھ کروڑ روپے واپس بینکو ں میں جمع ہو گئے، یعنی۹۹؍ فیصد سے زیادہ رقم نظام میں واپس آ گئی۔ اس سے اس نکتہ کو تقویت ملی کہ کالا دھن ختم نہیں ہوا بلکہ بینکنگ نظام کے ذریعے ’سفید‘ بن گیا۔ اس دوران بینکوں اور اے ٹی ایم کے باہر طویل قطاروں میں متعدد افراد کی موت بھی ہوئی ۔ چھوٹے کاروبار، غیر منظم شعبے اور دیہی معیشت کو بڑا دھچکا لگا ۔ ماہرین معیشت کے مطابق، نوٹ بندی کے بعد جی ڈی پی میں نمایاں گراوٹ دیکھی گئی اور چھوٹے صنعت کاروں کو سنبھلنے میں برسوں لگ گئے۔نوٹ بندی کے فوراً بعد حکومت نے ۲؍ ہزارروپے کا نیا نوٹ جاری کیا تاکہ نقدی کی قلت کو پورا کیا جا سکے لیکن۲۰۲۳ء میں ریزرو بینک نے انہی ۲؍ ہزار روپے کے نوٹوں کو بھی چلن سے ہٹا دیا۔ یوں لگتا ہے جیسے نوٹ بندی کے فیصلے نے خود اپنی سمت بدل لی۔
ایک پہلو سے حکومت اپنے فیصلے کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرتی ہے جو ڈیجیٹل لین دین کا تیز رفتار فروغ ہے۔ نوٹ بندی کے بعد لوگوں نے آن لائن ادائیگی کے طریقے اپنانا شروع کیا۔ پے ٹی ایم، فون پے اور گوگل پے جیسی ایپس نے روزمرہ لین دین کو آسان بنا دیا۔ آج ملک میں یو پی آئی کے ذریعے روزانہ۱۴؍کروڑ سے زیادہ ٹرانزیکشن ہوتے ہیں۔تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف نوٹ بندی کو اس تبدیلی کا کریڈٹ دینا درست نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں انٹرنیٹ تک عام رسائی، اسمارٹ فونز کے پھیلاؤ اور آن لائن سہولیات نے بھی اس رجحان کو بڑھایا ہے۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر ڈیجیٹل انقلاب واقعی نوٹ بندی کا نتیجہ ہوتا، تو حکومت کو کم از کم اس کے باقی اثرات کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہئے۔ کیونکہ جس طرح ڈیجیٹل ادائیگی بڑھی، اسی طرح نقدی پر انحصار رکھنے والے لاکھوں لوگوں کا روزگار متاثر ہوا۔نوٹ بندی کے نو سال بعد بھی بحث جاری ہے، آیا یہ قدم’ بدعنوانی پر وار‘ تھا یا ’عوام پر بوجھ‘۔