سب سے زیادہ متاثر درنہ کے ایک شہری کا بیان ، سیلاب کے ایک ہفتے بعد امدادی سرگرمیاں تیز، اقوام متحدہ کے مطابق تباہی کے حساب سے اب تک کی امداد ناکافی
EPAPER
Updated: September 19, 2023, 10:21 AM IST | Tripoli
سب سے زیادہ متاثر درنہ کے ایک شہری کا بیان ، سیلاب کے ایک ہفتے بعد امدادی سرگرمیاں تیز، اقوام متحدہ کے مطابق تباہی کے حساب سے اب تک کی امداد ناکافی
لیبیا کے درنہ شہر میں کوئی بھی خاندان سیلاب سے محفوظ نہیں ہے۔ دوسری جانب سے سیلاب کے ایک ہفتے بعد امدادی سرگرمیاں تیز کردی گئی ہیں۔ دریں اثنا ء اقوام متحدہ نےاب تک کی امداد کو ناکافی قراردیاہے۔
یادر ہےکہ لیبیا میں اتوار کی شب سمندری طوفان کے زیر اثر موسلادھار بار ش ہوئی او ر اس کے نتیجے میں دو ڈیم تباہ ہوگئے جس سے اچانک بڑے پیمانے پر سیلاب آگیا، پور ادرنہ شہر ڈوب گیا۔ سیلاب سے سب سے زیادہ درنہ متاثر ہوا۔ اس شہر کا ہر خاندان کسی نہ کسی طریقے سے سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔
اس بارےمیں درنہ شہر کے محمد الداولی نے اےایف پی کو بتایا ، ’’ لیبیا کےاس شہر کا ہر خاندان سیلاب سے متاثر ہو اہے۔ ‘‘
لیبیا کی متوازی حکومت ’ مشرقی انتظامیہ‘ کے وزیر صحت عثمان عبد الجیل نے بتایا ، ’’ درنہ میں اب تک ۳؍ ہزار ۲۵۲؍ افراد کے ہلاک ہونےکی تصدیق ہوچکی ہے۔ ‘‘
درنہ میں اب بھی ہزاروں خاندان
خوراک اور پناہ سے محروم
اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے درنہ میں تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والےافراد کو امدادی خوراک فراہم کی ہے۔ ڈبلیو ایف پی کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سنڈی مکین نے بتایا،’’جانی نقصان کے ساتھ ساتھ درنہ میں اب بھی ہزاروں خاندان خوراک اور پناہ سے محروم ہیں۔ آئندہ۳؍ ماہ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایک لاکھ افراد کو ماہانہ مدد فراہم کرنے کا ہدف ہے۔ ‘‘
سنڈی مکین کا کہناتھا،’’ یہ تباہ کن سیلاب ایسے ملک میں آیا ہے جہاں سنگین سیاسی بحران کے سبب پہلے ہی بہت سے لوگ مایوس ہیں۔‘‘
یادرہےکہ لیبیا میں۲۰۱۴ء سے دارالحکومت طرابلس میں عبوری اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت جبکہ مشرقی حصے میں ایک اور متوازی حکومت قائم ہے۔ ان حالات میں لیبیا میں کسی بھی قدرتی آفت سے مقابلے کی صلاحیت نہیں رہ گئی ہے۔ ان حالات میںاقوام متحدہ کے امدادی کارکن لاکھوں متاثرین کوامداد پہنچانے میںمصروف ہیں۔ قبل ازیں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال’ یونیسیف ‘ کی نمائندہ مشیل سیرواڈئی نے بتایا تھا، ’’ صورتحال انتہائی نازک ہے۔ یونیسیف نے سیلاب کے ۲؍ دن بعد ۱۰؍ ہزار افرادکیلئے طبی سازوسامان اور ادویات بھیجی تھی۔ یہ سامان تباہی کے بعد ابتدائی دنوں میں مہیا کیا گیا تھا۔ صحت و صفائی کے سامان پر مشتمل ۱۱؍ سو تھیلے اور کپڑے بھی بھیجے گئے لیکن تباہی کو دیکھتے ہوئے یہ مدد نہ کے برابر ہے۔ ‘‘
انہوں نے مزید بتایا ،’’ نہ صرف بے گھر ہونے والوں بلکہ پناہ گاہوں میں موجود متاثرین کو اپنی جان بچانے کیلئے مطلوبہ سامان کی ضرورت ہے۔ انہیں فوری نفسیاتی مدد کی بھی ضرورت ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس سیلاب کی خوفناک رات گزارنے کے بعد اب تک بے یارومددگار ہیں۔ ‘‘
قبل ازیں اقوام متحدہ میں امدادی امور کے رابطہ دفتر `او سی ایچ اے نے عطیہ دہندگان سے۷۱ء۴؍ ملین ڈالر مہیا کرنے کی ہنگامی اپیل کی تاکہ لیبیا میں سیلاب سے متاثر تقریباً۲؍ لاکھ ۵۰؍ ہزار کی آئندہ ۳؍ ماہ کیلئے ضروریات پوری کی جا سکیں۔ ادارے کا کہنا تھا کہ مزید مدد نہ پہنچی تو مرنے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ `او سی ایچ اےکا اندازہ ہے کہ طوفان اور سیلاب سے براہ راست متاثر ہونے والے علاقوں میں ۸؍ لاکھ ۸۰؍ ہزار زیادہ افراد رہتے ہیں۔ `او سی ایچ اے کے سربراہ مارٹن گرفتھس کا کہنا ہے کہ متاثرین کیلئے زیادہ سے زیادہ مدد جمع کی جائے۔ دریں اثنا ہنگامی امدادی اقدامات کرنے والی ٹیموں کے پاس ملبہ میں دبے افراد کو نکالنے کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ مارٹن گرفتھس کا کہنا ہے کہ درنہ میں سیلاب سے ہونے والی تباہی ناقابل بیان ہے اور پورے کے پورے علاقے پلک جھپکتے ہی مٹ گئے۔ سیلابی ریلا پورے پورے خاندان کو سنبھلنے سےپہلے ہی بہا لے گیا۔ ان کے مطابق لیبیا میں بعض افرادنے اپنے خاندان کے ۵۰؍یا اس سے بھی زیادہ افراد کو کھو دیا ہے۔
مارٹن گرفتھس نے اس نقصان کی تلافی کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ انہوں نے بتایا ، ’’ لیبیا میں انتہائی فوری ضروریات کے بارے میں بتایاکہ سیلابی کیچڑ اور تباہ شدہ عمارتوں میں پھنسے افراد کو ڈھونڈنے کیلئے درکار سازوسامان، پناہ، خوراک، صاف پانی، نکاسی آب کی سہولیات اور ابتدائی طبی امداد فوری ضرورت ہے۔ ‘‘
’’لیبیامیںتباہی کے نتائج انتہائی خوفناک ناقابل تصور اور ناقابل بیان ہیں‘‘
سیلا ب نے لیبیا کا نقشہ بگاڑ دیا ہے ۔ اس بارے میںاقوام متحدہ نے بتایاکہ لیبیامیںتباہی کے نتائج انتہائی خوفناک ، ناقابل تصور اور ناقابل بیان ہیں ۔ سمندری طوفان کے سبب بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب میں تقریباً۲۰؍ ہزار افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔