Inquilab Logo Happiest Places to Work

دُنیا بھر میں اُردو کی ہر بستی سوگوار، شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال

Updated: December 26, 2020, 9:15 AM IST | Shakir Hussain Tashna | Allahabad

رحلت کی خبر جہاں جہاں پہنچی اہل اُردو ہی نہیں دیگر زبانوں کے اہل علم و ادب بھی غمزدہ ہوئے، اشوک نگر کے نوادہ قبرستان میں سپرد خاک، بڑی تعداد میں ادیبوں، شاعروں اور دیگر فنکاروں نے الوداع کہا

Shams ur Rehman Farooqi.Picture :INN
شمس الرحمٰن فاروقی۔ تصویر:آئی این این

اردو دنیا کے بلند قامت نقاد، ادیب، شاعر، مدیر اور کئی کتابوں کے مصنف پدم شری شمس الرحمٰن فاروقی کا جمعہ کی صبح ساڑھے ۱۱؍بجے الہ آباد میں انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر تقریباً ۸۵ ؍برس تھی۔ مرحوم کی تدفین نوادہ قبرستان ( اشوک نگر) میں ہوئی۔ اس موقع پر متعلقین کے علاوہ اُردو، ہندی اور دیگر زبانوں کے ادباء و شعراء  بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پسماندگان میں دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے بھائیوں میں سابق وائس چانسلر الہ آباد یونیورسٹی  پروفیسر نعیم الرحمٰن فاروقی، کلیم الرحمٰن فاروقی، شمیم الرحمٰن فاروقی، محمد احمد فاروقی اور ابو القاسم فاروقی (آئی اے ایس) ہیں۔ شعر شور انگیز (چار جلدیں)،  تعبیر کی شرح، شعر غیر شعر اور نثر، گنج سوختہ، لغات روزمرہ، لفظ و معنی اور ایسی ہی متعدد دیگر معرکۃ آلارا کتابوں کے مصنف شمس الرحمٰن فاروقی کافی دنوں سے علیل تھے اور دہلی کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے۔ آج ہی انہیں ایئر ایمبولینس کے ذریعہ واپس الہ آباد لایا گیا تھا۔ جمعہ کو جیسے ہی شمس الرحمٰن کی رحلت کی خبر عام ہوئی دورونزدیک ہر جگہ کے ادبی حلقوں میں غم کی لہر دوڑ گئی اور اُن کی رہائش پر اظہار تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ان میں پروفیسر علی احمد فاطمی، فضل حسنین، پروفیسر محمد اسلم، پروفیسر سہیل اکبر، پروفیسر سوریہ نارائن، پروفیسر علی جاوید، اسرار گاندھی، احمد حسنین، ڈاکٹر فاضل ہاشمی، ڈاکٹر حسین جیلانی اور پروفیسر شبنم حمید جیسی شخصیات شامل تھیں۔ شمس الرحمٰن کا نام اردو ادب میں انتہائی احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی لیاقت و صلاحیت کی نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری اردو دنیا معترف ہے۔ مرحوم کی دودرجن سے زائد کتابیں ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں اُنہیں خطاب کرنے کیلئے مدعو کیا گیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری تفویض کی گئی تھی۔ اُنہیں ’سرسوتی سمان‘ سے بھی سرفراز کیا گیا تھا۔ ہندوستان کی بیشتر ریاستی اردو اکادمیوں نے انہیں اپنے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا ہے۔ ان کا ناول ’ کئی چاند تھے سر آسما ں‘ اردو انگریزی اور ہندی تینوں زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ’تفہیم غالب ‘ بھی بہت مقبول ہوئی۔ ایک اور کتاب ’تنقیدی افکار‘ پر اُنہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا تھا۔
  شمس الرحمٰن فاروقی ۱۵؍جنوری ۳۶ ۱۹ء کو پرتاپ گڑھ میں پیدا ہوئےتاہم ۱۹۵۳ ء میں الہ آباد آگئے۔انہوں نے ۱۹۵۵ ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا ۔کچھ دنوں تک شبلی نیشنل پوسٹ گریجویٹ کالج اعظم گڑھ اور بلیا میںانگریزی ادب کے لکچرر رہے ۔ اس کے بعد انڈین پوسٹل سروسیز کیلئے منتخب ہوئے اور مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ وہ ترقی اردوکونسل نئی دہلی کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے تھے۔  ان کی کوششوں سے مرزا غالب، میر انیس، فراق گورکھپوری اور حسرت موہانی جیسی اُردو کی اکابر شخصیات پر یاد گاری ڈاک ٹکٹ جاری ہوئے۔ مرحوم نے ۱۹۶۶ ء میں ماہنامہ ’شب خون‘ جاری کیا تھا جس نے جدیدیت کو فروغ دیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK