• Fri, 21 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

الفلاح یونیورسٹی میں داخلے کیلئے جوش وخروش

Updated: November 21, 2025, 12:11 AM IST

ادارے میں ایم بی بی ایس کی تمام ۱۵۰؍نشستیںفل ہوگئیں لیکن اسی دوران یونیورسٹی کے چیئرمین کامکان منہدم کرنے کی بھی تیاری ، الٹی میٹم دیاگیا

Al Falah University entrance
الفلاح یونیوسٹی کا داخلی دروازہ

گزشتہ دنوں  لال قلعہ کے قریب ہونے والے خوفناک دھماکے میں کم از کم ۱۲؍ افراد کی جانیں چلی گئیں۔ اس معاملے میں جاری تحقیقات کے باعث جلد ہی فریدآباد کے الفلاح میڈیکل کالج اور یونیورسٹی سے جڑے ایک ممکنہ دہشت گردانہ نیٹ ورک کی نشاندہی کا دعویٰ کیاگیا لیکن اسی دوران ۱۳؍ نومبر کو کالج میں ایم بی بی ایس کی آخری راؤنڈ کی کاؤنسلنگ پوری رفتار سے جاری تھی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق امسال کیلئے مختص ۱۵۰؍ میں سے تمام نشستیں فل ہو گئی ہیں۔قومی طبی کمیشن (این ایم سی ) نے کہا ہے کہ وہ کیس سے متعلق تمام پہلوؤں کی جانچ کے بعد ہی تحقیقاتی ایجنسیوں کو اپنا باضابطہ موقف دے گا اور آئندہ کی کارروائی کا فیصلہ تحقیقات کی بنیاد پر ہوگا۔الفلاح اسکول آف میڈیکل سائنسز اینڈ ریسرچ سینٹر کو  ۲۰۱۹ءمیں این ایم سی نے پہلی مرتبہ ایم بی بی ایس بیچ داخل کرنے کی منظوری دی تھی۔ کالج میں ۱۵۰؍نشستیں ہیں جبکہ پہلے سال کی فیس ۱۶؍ لاکھ روپے سے زائد ہے ۔ ہریانہ کا محکمۂ طبی تعلیم و تحقیق ریاست بھر کے تمام میڈیکل کالجوں میں نیٹ-یو جی کی بنیاد پر داخلہ کاؤنسلنگ کراتا ہے ۔ طلبہ کے دستاویزات کی باضابطہ جانچ پی جی آئی ایم ایس روہتک میں ہوتی ہے ۔ اگست  سے اکتوبر تک ہونے والے تین کاؤنسلنگ راؤنڈز کے باوجود ۱۵؍ نشستیں خالی رہ گئی تھیں جنہیں ۱۳؍ نومبر کے راؤنڈ میں پُر کیا گیا۔
 کالج کی داخلہ کمیٹی کے ایک رکن نے کہا کہ طلبہ اکثر بہتر کالج  کے انتخاب کو ترجیح دیتے ہیں، ا اسی لیے پہلے تین راؤنڈز کے بعد نشستیں خالی رہ گئیں لیکن چوتھے رائونڈ میں وہ بھی فل ہو گئیں ۔ اس بارے میں طبی تعلیم کے ماہر اورپی جی آئی ایم ایس روہتک کے پروفیسر اور ہریانہ اسٹیٹ میڈیکل ٹیچرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر ڈاکٹر وویک سنگھ ملک کا کہنا ہے کہ ایک واقعہ پورے کالج یا یونیورسٹی کی ساکھ کا تعین نہیں کرتا۔ کالج پرائیویٹ ضرور ہے مگر اسے این ایم سی کے تمام قواعد پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ فیس دیگر نجی میڈیکل کالجوں کے مقابلے کم ہے، اسی لیے طلبہ اسے ترجیح دیتے ہیں۔کیا کالج کی منظوری واپس لی جا سکتی ہے؟ اس سوال پر این ایم سی کے ایک سینئر افسر نے کہاکہ ضرورت پڑنے پر حکومت، ادارہ کا انتظام  اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے ۔ اس وقت کالج میں سیکڑوں طلبہ پڑھ رہے ہیں، ہم ان کے مستقبل سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔
 اس دوران دہلی کاردھماکہ معاملے میں فرید آباد کی الفلاح یونیورسٹی کے چیئرمین جواد احمد صدیقی پر انتظامیہ شکنجہ کس رہا ہے ۔ مہو میں ان کے گھر کو گرانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ دہلی کار بم دھماکوں کے ملزمین کا الفلاح یونیورسٹی سے تعلق ہونے کی وجہ سے ادارے اور اس کے عہدیداروں  کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہے ۔یونیورسٹی کے چیئرمین محمد جواد احمد صدیقی مدھیہ پردیش میں مہو کے رہنے والے ہیں۔ جواد کا آبائی گھر مہو کے کایستھ محلہ میں واقع ہے ۔ ا ندیشہ ہےکہ جلد ہی اس مکان پر بلڈوزر چلایا جا سکتا ہے ۔ مہو کنٹونمنٹ بورڈ نے مکان کے ایک حصے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے گرانے کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔
 کنٹونمنٹ بورڈ نے جواد صدیقی کے مکان پر غیر قانونی تعمیرات ہٹانے کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ۳؍ دن کی مہلت دی ہے۔ یہ گھر مبینہ طور پر ان کے والد حماد صدیقی کے نام پر ہے۔ بورڈ کے حکام کے مطابق مکان بغیر اجازت کے تعمیر کیا گیا۔دعویٰ کیا گیا ہےکہ اس مکان کے حوالے سے ماضی میں بھی نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں۔
 دہلی بم دھماکوں کے ملزمین کا الفلاح یونیورسٹی سے تعلق سامنے آنے کے بعد ادارے کے چیئرمین جواد احمد صدیقی کے خلاف سلسلے وار چھاپے مارے گئے، بعد ازاں گزشتہ روز انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ واضح رہے کہ دہلی دھماکے کے ملزمین الفلاح یونیورسٹی میں تدریسی سرگرمیاں انجام دے رہے تھے جن میں ڈاکٹر عمر نبی بھی شامل تھے ۔ جواد احمد صدیقی کا خاندان تقریباً۲۵؍ سال قبل مہو چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اس سے پہلے جواد اور ان کا خاندان مہو میں ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ ان کے والد شہر قاضی تھے  جن کا انتقال ۱۹۹۵ء میں ہواتھا  ۔  دہلی کے حالیہ بم دھماکوں کے کلیدی ملزم ڈاکٹر عمر نبی الفلاح یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے ۔این آئی اے اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔مذکورہ بورڈ نےچار منزلہ عمارت سے تجاوزات ہٹانے کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ نوٹس میں تین دن کا وقت دیا گیا ہے۔ حکم پر عمل نہ کرنے پر تو کینٹ بورڈ مزید کارروائی کرےگا۔

new delhi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK