رویندرناٹیہ مندرمیں غالب، ذوق، داغ ،مومن خان مومن اور دیگرشعراء نے لال قلعہ کے دیوان میں مغلیہ دور کا آخری مشاعرہ پیش کرکے علم و ادب کے قدردانوں سے داد وتحسین حاصل کی
ڈرامہ ’آخری شمع ‘ پیش کرنے والے اداکار،شعراء کے کردار میں۔ تصویر: آئی این این
فرحت اللہ بیگ کی کتاب ’دلّی کا یادگار مشاعرہ ‘ سے کیفی اعظمی کے ذریعہ پیش کیا جانے والا ڈرامہ ’ آخری شمع‘ کو ۵۶؍ سال مکمل ہوگئے ہیں۔ یہ ڈرامہ گزشتہ روز ایک بار پھر رویندرناٹیہ مندر میں پیش کیا گیا ۔ اسٹیج پر مغلیہ دور کےلال قلعہ کے دیوان میں آخری مشاعرہ کی حیثیت رکھنے والی اس محفل میں مرزا غالب ، ذوق ، داغ اورمومن خان مومن جیسے بڑے شعراء کی شرکت اور لافانی کلام نے چار چاند لگادیئے اور شائقین پھر عش عش کر اٹھے ۔
شام ۷؍ بجےرویندر ناٹیہ مندر کا پردہ اٹھتا ہے اور اسٹیج پر کنو ل جیت جو غالب کا کردار نبھا رہے تھے، انگریزوں کے حملوں کے سبب دلّی کو لٹتا اور برباد ہوتا دیکھ بہت غمگین نظر آتے ہیں ، پھر گویا ہوتے ہیں کہ’ ہے خبر ان کے آنے کی ، آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا ‘۔اسی درمیان ایک فقیر دف بجاتا ہوا اسٹیج پر نظر آتا ہے اور ’جلا ہے جسم دلّی جل گیا ہوگا‘ گاتا ہوا گزر جاتا ہے ۔ وہیں پس منظر میں گلوکارہ ریکھا بھاردواج کی آواز میں غالب کے کلام’ دل کی روح‘پر سومیترا سین رقص پیش کرتی ہے ۔ اسی درمیان غمگین اور اندھیرے منظر کو چیرتے ہوئے کسی شمع کی طرح رمیش تلوار روشن ہوتے ہیں جو اس شو کے پروڈیوسر بھی ہیں اور جنہوںنے کریم الدین کا کردار نبھایا ہے ،مغلیہ دور کے اس آخری مشاعرہ کا اہتمام کرنے والے، غالب ، ذوق ،داغ اورمومن خان مومن کو ایک ہی دربار میں اکٹھا کرنے کے لئےاسٹیج پر جو پاپڑ بیلتے ہیں، اس سے شائقین نے خوب لطف اٹھایا ۔
ایل آئی سی کے زیر اشتراک اوراپٹا کے زیراہتمام منعقدہ اس ڈرامہ میں پس منظر میں کیفی اعظمی اور بلراج ساہنی کی آوازیں شائقین کو مسحور کرتی ہیں۔بالآخر کریم الدین کی کوششوں کی بدولت لال قلعہ کے دیوان میں بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی اجازت کے بعد مشاعرہ کی ’آخری شمع ‘ جل اٹھتی ہے ۔ ناظم مشاعرہ کے فرائض اقبال نیازی نے نبھاتے ہوئے مشاعرہ کا آغاز کیا اور سب سے پہلے بہادر شاہ ظفر کا کلام ’نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا ‘ ۔ پھر شمع یکے بعد دیگرے اسٹیج پر موجود ۴۰؍ شعراء کے درمیان گردش کرتی ہے جہاں دہلی اور لکھنؤ کے شعراء کے درمیان شعری و ادبی بحث کے منظر کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔ عبدالرحمٰن ہد ہد کے کردار میں راکیش بیدی اور ببول مہرا ( پہلوان یل) کے درمیان کھٹی میٹھی اور تیکھی نوک جھونک نے اس محفل کو زعفران زار بنادیا ۔
۵؍ ہزار سے زائد شو کرنے اور ۵۶؍ سال پورےہونے پر رویندر ناٹیہ مندر میں جو ’ آخر ی شمع ‘ روشن کی گئی ،اس میں غالب اور ذوق کے علاوہ جنہوںنے مغلیہ دور کے شعراء کے کردار نبھائے، ان میں اوتار گل (حافظ دیوان ) ، عبدالرحمٰن ہد ہد ( راکیش بیدی )، مومن خان مومن ( منیش وادھوا) ، نواب زین العابدین خان ( اکھلیندر مشرا) ، بال مکند حضور (انجان شریواستو) اور آغا جان کا کردار پرتھوی میندو لال نے نبھایا ۔ لائٹ افیکٹس اکبر خان اور موسیقی وکاس راؤت نے دی تھی ۔ مشاعرہ کے اختتام پر شائقین کی تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے درمیان ۴۰؍ شعراءکو ان کی بہترین خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ٹرافی سے نوازا گیا ۔