Inquilab Logo

ملک میں پھر کوئلے کے بحران کا خدشہ ،بجلی کٹوتی کا بھی امکان

Updated: May 29, 2022, 4:21 AM IST | new Delhi

وزارت توانائی کی ایک داخلی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں پیش گوئی کی ہےکہ جولائی تا ستمبر والی سہ ماہی میں طلب کے مطابق کوئلہ کی فراہمی میں ۴۲ء۵؍ ملین ٹن کمی واقع ہو سکتی ہے،پاورپلانٹس کوکوئلہ کی درآمدبڑھانے کی ہدایت ، بصور ت دیگرکان کنی سے حاصل ہونے کوئلے کی سپلائی میں کمی کا انتباہ

Power plants are now instructed to import mostly coal.
پاورپلانٹس کو اب زیادہ تر کوئلہ درآمد کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ۔(علامتی تصویر)

 ہندوستان کو رواں مالی سال ۲۳-۲۰۲۲ء کی دوسری یعنی ستمبر میں ختم ہونے والی سہ ماہی کے دوران کوئلہ کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اس وقت بجلی کی طلب زیادہ ہونے کی توقع ہے۔خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق وزارت توانائی کی ایک داخلی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ان خدشات کا اظہار کیا ہے۔اس سے ملک میں بڑے پیمانے پر بجلی کٹوتی کا خطرہ لا حق ہو گیا ہے۔خدشہ ہے کہ جولائی تا ستمبر والی سہ ماہی میں طلب کے مطابق کوئلہ کی فراہمی میں۴۲ء۵؍ملین ٹن کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ یہ کمی گزشتہ بحران میں بجلی کی طلب میں اضافہ کے سبب واقع ہونے والی کوئلہ کی کمی سے۱۵؍ فیصد زیادہ ہو سکتی ہے۔یہ پیش گوئی ایسے وقت میں سامنے آئی ہےکہ جبکہ ہندوستان میں ایندھن کی قلت شدید ہوتی جارہی ہے اور ۳۸؍سال بعدملک میںبجلی کی سالانہ طلب میںاضافہ دیکھا جارہا ہے۔جبکہ دوسری جانب روس-یوکرین جنگ  کے سبب کوئلہ کی فراہمی میں کافی کمی  واقع ہوئی ہے اور کوئلہ کی عالمی قیمتیں ریکارڈ سطح پر برقرار ہیں۔
 مرکزی حکومت نے ان حالات کے پیش نظر حال ہی میں پاور پلانٹس پر کوئلہ کی درآمدبڑھانے پر زور دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے وافر مقدار میں کوئلہ درآمد کر کے ذخیرہ اندوزی نہیں کی تو ان کو فراہم کئے جانے والے اس کوئلہ میں کمی کر دی جائے گی جو مقامی طور پر کان کنی کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔
 رپورٹ کے مطابق بیشتر ریاستوں نے ابھی تک کوئلہ درآمد کرنے کا معاہدہ نہیں کیا ہے، جبکہ اگر کوئلہ درآمد نہ کیا گیا تو جولائی تک کئی پاور پلانٹس کو کوئلہ بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزارت بجلی کے مطابق اپریل کے آخر تک صرف ایک ریاست نے کوئلہ کی درآمد کیلئے ٹینڈر جاری کیا ہے۔وزارت کے دو سینئر حکام کے مطابق یہ پیش کش جمعہ کو ایک ورچوئل میٹنگ میں دی گئی جس میں کوئلہ اور بجلی کے مرکزی وزیر موجود تھے۔ ان کے علاوہ مرکز اور ریاستوں کے اعلیٰ توانائی عہدیداران بھی میٹنگ میں موجود تھے۔ ہندوستان نے حالیہ دنوں میں ان حالات میں کوئلے کی درآمد بڑھانے کیلئے پاور پلانٹس پر دباؤ بڑھایا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر پاور پلانٹس درآمد کرکے اپنے کوئلے کا تفصیلی ریکارڈ  تیار نہیں کرتے ہیں تو انہیںمقامی طور پر کان کنی والے کوئلے کی سپلائی میں کمی کر دی جائیگی۔وزارت کی پاور پریزنٹیشن کی ایک سلائیڈ میں یہ دکھایا گیا ہے کہ زیادہ تر ریاستوں نے ابھی تک کوئلہ درآمد کرنے کا ٹھیکہ نہیں دیا ہے۔ ایسے میں اگر کوئلہ درآمد نہ کیا گیا تو جولائی تک کئی پاور پلانٹس کے قریب کوئلے کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔واضح رہےکہ ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا کوئلہ پیدا کرنے والا ملک  ہے اور کوئلےکا سب سے زیادہ ذخیرہ کرنے  کے معاملے میںہندوستان ۵؍ ویں نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود ملک میںکوئلے کا بحران دن بہ دن شدید ہوتا جارہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب طلب اور رسد یعنی ڈیمانڈ اور سپلائی کا کھیل بتایاجارہا ہے۔وزارت توا نائی کے ا عدادوشمار کے مطابق ۲۹؍ اپریل کو  ملک میںبجلی کے ڈیمانڈ نے سارے ریکارڈ توڑ دئیے تھے ۔ ۲۸؍ اپریل کو ملک میں بجلی کی طلب ۲ء۰۷؍ لاکھ میگا واٹ تھی ۔ لیکن اس وقت  اتنی ڈیمانڈ ہونے کے باوجود کوئلے کی سپلائی نہیںہوپا رہی تھی۔ یہی وجہ ہےکہ اس وقت ریلوے نے بھی ۶۵۰؍ سے زیادہ ٹرینوں کو منسوخ کردیا تھا تاکہ  پاورپلانٹ تک جلد سے جلد کوئلہ پہنچایا جاسکے ۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے وا لے تھرمل پلانٹ میں کم سے کم ۲۶؍ دن کے کوئلے کا اسٹاک ہونا چاہئے لیکن ملک میں کئی ایسے پلانٹس ہیں جہاں ۱۰؍دن سے بھی کم کا کوئلہ بچا ہے۔اس وقت تو صو رتحال یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ کسی کسی پلانٹ میں ایک دن کا کوئلہ ہی ذخیرہ تھا ۔
 ہندوستان میں ہر دن ۴؍ لاکھ میگا واٹ  سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔اس آدھی سے زیادہ بجلی کوئلے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس میںبھی زیادہ بجلی کی زیادہ مقدار گھریلو کوئلے سے پیدا ہوتی ہے۔ ہندوستان نے ۲۵-۲۰۲۴ء تک کوئلے کی پیداوار بڑھا کرسالانہ ایک ا رب ٹن تک پہنچنے کاہدف طےکررکھا ہےلیکن منڈلاتے ہوئے بحران  اوربجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کی صورت میں یہ منصوبے اور اہداف بگڑ سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK