Inquilab Logo Happiest Places to Work

قربانی کے جانوروں کی ۸؍تا ۱۰؍کروڑروپے کی کھالیں ضائع ہونے کا اندیشہ

Updated: June 05, 2025, 11:15 AM IST | Mumbai

ممبئی میںتقریباً ڈھائی لاکھ بکروں کی قربانی کی جاتی ہے ۔عام دنوں میںکٹنے والے بکروں کی کھالوں کی قیمت ۳۰؍ روپے ہے جبکہ قربانی کی کھالیں بڑی سائز کی ہوتی ہیں۔ تاجروں نے اپنی پریشانی بتائی

Madrasas have also raised their hands against taking the skins of sacrificial animals. (File photo)
قربانی کے جانوروں کی کھالیں لینے سے مدارس نے بھی ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں۔(فائل فوٹو)

بکروں کی کھالوں کی قیمت برائے نام ہونے سے صرف ممبئی میں امسال عیدقرباں میں ۸؍تا ۱۰؍کروڑ روپے کی کھالیں ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ عروس البلادممبئی میںتقریباً ڈھائی لاکھ بکروں کی قربانی کی جاتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں جانور قربان کئے جانے کےباوجود اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ تاجروں کی جانب سےٹھوس یقین دہانی نہیںکروائی گئی ہے کہ وہ کھالیں خریدیں گے یا نہیں اور اگر خریدیں گے تو کیا صورت ہوگی۔اسی لئے مدارس کے انتظامیہ نے بھی ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں۔ 
۸؍تا ۱۰؍کروڑروپے کیسے ضائع ہوجائیںگے
 عا م کاٹے جانے والے بکروں کی کھال فی الوقت ۳۰؍ روپے میں فروخت کی جارہی ہے ۔ اس کے مقابلے قربانی کے جانوروں کی کھالیں فل سائز کی ہوتی ہیں ،اس لئے اس کی قیمت بھی زیادہ ہونی چاہئے لیکن معاملہ بالکل الٹ ہے۔ تاجروں سے بات چیت کرنے پریہ اندازہ ہوا کہ اگر قربانی کی کھالوں کو بھی ۳۰؍ روپے کے حساب سے جوڑا جائے تو ۷؍ کروڑ ۵۰؍ لاکھ روپے ہوتے ہیں اور اگر ۴۰؍ روپے کے حساب سے ضرب دیا جائے تو یہ رقم ۱۰؍ کروڑ روپے ہوجاتی ہے ۔ اس طرح خریدار نہ ملنے سے جہاں قربانی کی کھالیں ضائع ہوتی ہیں، ان کی بے حرمتی کی جاتی ہے وہیں خطیر رقم بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ چنانچہ تاجروں نے بھی یہ اعتراف کیا کہ یہ ایسا ملّی مسئلہ ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے اوراس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ 
مدارس کا بڑا نقصان 
 ممبئی کے ذمہ داران مدارس سے بات چیت کرنے پر انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کے بعد ممبئی ہی نہیںملک کےتمام مدارس کےلئے چرم قربانی آمدنی کادوسرا بڑا ذریعہ ہوا کرتا تھا ۔ملک کے طول وعرض سے بڑے اداروں کے ذمہ داران بھی قربانی کے دنوں میںممبئی کا رخ کیا کرتے تھے لیکن چند برس سے یہ معاملہ صفر ہوگیا ہے۔ بعض ادارے توایسے تھے جہاں۱۰؍ لاکھ روپے یا اس سے زائد قیمت کی کھالیں جمع ہوجاتی تھیں۔
 شہر میںکچھ ذمہ دارحضرات سےبات چیت کرنے پر اانہوں نے کہا کہ واقعی اس نظریے سے کبھی سوچا ہی نہیں گیا کہ یہ اتنا بڑا نقصان ہورہا ہے۔  ہرشخص اپنےطور پرسوچتا ہے کہ اس کے قربانی کی جانور کی قیمت ۳۰؍۴۰؍ روپے ہوگی، اس سے کیا ہوگا۔ اس تعلق سے معید احمدخا ن نے کہا کہ’’ یہ توجہ طلب مسئلہ ہے ۔قربانی کرنے والے، تاجر اور مدارس کے ذمہ داران،سبھی کوا س کے حل کیلئے کوشش کرنی ہوگی۔‘ ‘ حافظ عبدالجبار خان نے کہاکہ’’ جس پہلوپربات کی جارہی ہے، واقعی کبھی یہ ذہن میں ہی نہیںآیا کہ قوم کی اتنی بڑی رقم ضائع ہوجاتی ہے اوراسےبچانے کیلئے کوئی ٹھوس لائحۂ عمل طے نہیں کیا گیا ۔‘‘ مولانا نوشاد احمدصدیقی نے کہا کہ’’ یہ ملت کا اجتماعی بڑا نقصان ہے۔ اگر کروڑ د و کروڑروپے کہیں لگا دیئے جائیں تو بڑا کام ہوجاتا ہے یہ تو ۸؍ تا ۱۰؍کروڑروپے کی خطیر رقم ضائع ہورہی ہے۔ اگر قربانی سے چند ماہ قبل سے اس کی تیاری کی جائے تومسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔‘‘ 
تاجروں نے اعتراف کیا اورمختلف مسائل بتائے
 چمڑے کے بڑے تاجرحاجی عنایت حسین نے کہاکہ’’ میں اس سے اتفاق رکھتا ہوں کہ یہ ملت کا بڑا نقصان ہے اور شرعی لحاظ سے بھی کھال کی بےحرمتی سے انکارنہیںکیاجاسکتا ۔ اس کے ساتھ ہی دینی مدارس کابڑامالی نقصان ہے۔ انہوں نے قربانی کی کھالیں نہ خریدنے کی وجہ یہ بتائی کہ’’عام دنوں میں جوبکرے کاٹے جاتے ہیںان کاچمڑا جوتا وغیرہ بنانے میں استعمال کیا جاتاہے لیکن قربانی کےجانوروں کا چمڑا فل سائز کاہوتا ہے اور ۱۵؍ تا ۲۰؍ فیصد کٹ جاتا ہے، اس لئے بڑے تاجر نہیںخریدتے ہیں۔ ہم نےاس تعلق سے مدراس اور دیگر جگہوں پررابطہ قائم کیا تاکہ ان کو سپلائی کیا جائےمگر انہوں نے قربانی کی کھالیں خریدنے سے انکار کردیا۔‘‘
 بکروں کی کھالیں خریدنے والے نل بازار کے محمد صادق نے بتایا کہ ’’ ان حالات میں بھی وہ قربانی کی کھالیں خریدیںگے ۔ان کے گودام  میں ۲؍ہزارکھالیں رکھنے کی گنجائش ہے، بڑی جگہ حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں، اگرجگہ مل گئی تو وہ اورزیادہ کھالیںخریدیںگے ۔‘‘ 
 بڑے جانوروں کی کھالوں کے بڑے تاجر عبدالعزیز عرف اَجّی نےکہاکہ ’’سب سے بڑا مسئلہ جگہ نہ ملنا ہے۔ پہلے دھاراوی میںجگہ مل جاتی تھی ، وہاں ڈپو بنالیا جاتا تھااور اطمینان سے تین دن کام جاری رہتا تھا، چند برس سے اسے ختم کردیا گیا ، بی ایم سی کی جانب سے دوسری جگہ کیلئے لاکھوں روپے کرایہ کا مطالبہ کیاجاتا ہے۔ دوسرے تین دنوں کیلئے ملازم نہیں ملتے اور اگر وہ ملتے ہیں توبڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تیسرے  وقت سے پہلے بارش ہونے سے نمک کا دام اور ٹرانسپورٹیشن خرچ بڑھ گیا۔اس کے باوجود آج بھی اگرجگہ مل جائے تو بڑی حد تک بڑے جانوروں کا چمڑا خریدا جاسکتا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK