کھالوں کی قیمتیں کافی کم ۔ ا س اجتماعی مسئلے کےتعلق سے ٹھوس لائحۂ عمل طے کرنے کی ضرورت ۔رابطۂ مدارس اسلامیہ کےترجمان نے بھی توجہ دلائی
EPAPER
Updated: May 23, 2025, 10:45 PM IST | Mumbai
کھالوں کی قیمتیں کافی کم ۔ ا س اجتماعی مسئلے کےتعلق سے ٹھوس لائحۂ عمل طے کرنے کی ضرورت ۔رابطۂ مدارس اسلامیہ کےترجمان نے بھی توجہ دلائی
قربانی کے ایام قریب آرہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اس دفعہ پھر ۲؍لاکھ سے زائد چرم قربانی کے بے وقعت ہونے کا اندیشہ ہے۔ چمڑے کی قیمت کم ہونے سےکئی طرح کے مسائل ہیں۔ اس لئے تاجر بھی زیادہ توجہ نہیں دیتے ہیں بلکہ قربانی کے ایام میں تو بسااوقات وہ کھالیں خریدنے سے انکار کردیتے ہیں۔ اس لئے ذمہ دار اشخاص کا کہنا ہے کہ اس تعلق سے پیشگی تیاری کی جائے اور اس مسئلے کا حل نکالا جائے کیونکہ راہ خدا میںقربانی کے سبب جہاں جانور کاگوشت دیگر جانوروں سے الگ ہوتا ہے وہیں کھال کی نوعیت بھی الگ ہوجاتی ہے۔ اس لئے اس پرخاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تاجروں کی زبانی
چمڑے کے کچھ تاجروں سے رابطہ قائم کرنے پر ان کاکہنا تھا کہ چمڑے کی قیمت میں مندی برقرار ہے اس لئے تاجرخود بھی پریشان رہتے ہیں۔ ان کایہ بھی کہنا تھا کہ عام دنوں میں اور عید قرباں میں کافی فرق ہوتا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ دو ڈھائی لاکھ کھالوں کا محض ۳؍ دن میںجمع کرنا ہے۔ اسی طرح اس کی صاف صفائی اور اسے محفوظ رکھنا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ اس لئے گزشتہ چند برسوں سےیہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور تقریباً ہرسال بڑی تعداد میں کھالیںضائع ہوجاتی ہیں۔اس پرسبھی کوسنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔‘‘
دی بامبے مٹن ڈیلرس اسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری شہنواز تھانہ والا نےبتایاکہ’’ دیگر تاجروں سے رابطہ قائم کرنے پر میں بھی اس نتیجے پرپہنچا کہ قربانی کی کھالوں کا جمع کرنا اور اسے محفوظ کرنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہےکہ آج بکروں کی کھال کی قیمت ۲۵؍ تا ۳۰؍ روپے، بڑے جانورو ں میںپاڑے کی کھال کی قیمت ۱۰۰؍ روپے، متوسط جانور کے کھال کی قیمت ۲۰۰؍ روپے اورفل سائز یعنی صحت مند بڑی بھینس کی کھال کی قیمت ۶۰۰؍روپےہے۔ ‘‘
انہوںنے یہ بھی بتایاکہ ’’ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہےکہ قربانی کے ایام میںچمڑا خراب ہوجاتا ہے اس کی وجہ نئے قصاب بازار میں آجاتے ہیں جو صحیح طریقے سےکھال نہیںاتارتے، جگہ جگہ کاٹ دیتے ہیں یا پھر کھال میںچربی اور گوشت لگا رہ جاتا ہےجس کی وجہ اس چمڑے کی قیمت اور بھی کم ہوجاتی ہے۔ پھرقربانی کے ایسے چمڑوں کی حفاظت اوراس کی صاف صفائی پر خرچ بھی زیادہ آتا ہے اس لئے تاجر زیادہ ہمت نہیں کرتے ۔یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ بھی وہی حالات رہنے کا اندیشہ ہے۔ ‘‘ شاہنواز تھانہ والا نے بھی اس سے اتفاق کیا کہ اس کا ٹھوس حل نکالا جانا چاہئے تاکہ قربانی کی کھالیں محفوظ ہوں اور اس کے ذریعے دینی مدارس کی پہلے کی طرح آمدنی ممکن ہو سکےجورمضان المبارک کےبعد بڑا سہارا ہوا کرتی تھی۔ ‘‘
مدارس کے ذمہ داران اپنے طورپرکام کریںگے
رابطہ مدارس اسلامیہ کے ترجمان مولاناعبدالقدوس شاکر حکیمی سے استفسار کرنے پر ان کا کہناتھا کہ ’’اس تعلق سے اب تک کوئی باضابطہ میٹنگ نہیںکی گئی ہے مگراپنی سہولت کے مطابق علاقے کی سطح پر ذمہ دارانِ مدارس کام کریںگے۔‘‘ انہوں نےاعتراف کیا کہ ’’یہ سچ ہے کہ کسی صورت قربانی کے چمڑوں کی بے حرمتی نہیںہونی چاہئے اور یہ ملت کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس لئے ابھی سے لائحۂ عمل طے کرنے کی ضرورت ہےتاکہ کوئی راستہ نکلے اورگزشتہ سال جیسے حالات سے بچا جاسکے۔‘‘
دیونار مذبح میںتاجر کھالیںخرید رہے ہیں
دیونار مذبح کے جنر ل منیجر کلیم پاشا پٹھان سے پوچھنے پرکہ اس وقت مذبح میں کھالوں کا کیا جاتا ہے تو انہوں نے بتایاکہ’’ دیونار مذبح میںلائسنس رکھنے والے تاجرہیں جو پابندی سے چمڑا خریدتے ہیں ۔ اس تعلق سے یہاں کھالوں کی خریداری کاکوئی مسئلہ نہیں ہے ۔‘‘