فیفا اور یوئیفا نے اسرائیل کو مقابلوں میں شامل کیا،فلسطینی فٹبال ایسوسی ایشن کی قانونی مشیر نے جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیل کی ان کھیلوں میں شمولیت کوبین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دی، جس کے بعدان اداروں کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔
EPAPER
Updated: October 28, 2025, 9:21 PM IST | Gaza
فیفا اور یوئیفا نے اسرائیل کو مقابلوں میں شامل کیا،فلسطینی فٹبال ایسوسی ایشن کی قانونی مشیر نے جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیل کی ان کھیلوں میں شمولیت کوبین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دی، جس کے بعدان اداروں کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔
فیفا اور یوئیفا کے اسرائیل کو مقابلوں میں شامل کرنے پر فلسطینی فٹبال ایسوسی ایشن کی قانونی مشیرکاٹ ویلاریو نے جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیل کی ان کھیلوں میں شمولیت کوبین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا، جس کے بعدان اداروں کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ کاٹ ویلاریو کا کہنا ہے کہ کئی اسرائیلی کھلاڑیوں نے غزہ کی تباہی کے حق میں پیغامات پوسٹ کیے۔ اسپورٹس لاء کی ماہر کاٹ ویلاریو نے کہا ہے کہ معتبر بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹ میں اسرائیل کے غزہ میں مظالم کو نسل کشی قرار دیا گیا ہے۔انادولو سے بات کرتے ہوئے ویلاریو نے کہا کہ’’ اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ، ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور فیئر اسکوائر نے اسرائیل کے خلاف نتائج جاری کیے ہیں، لیکن فیفا کے صدر گیانی انفانٹینو اور یوئیفا کے صدر الیگزینڈر سیفرین نے انہیں نظر انداز کیا ہے۔‘‘فٹ بال اور باسکٹ بال ایسوسی ایشن مقبوضہ فلسطینی زمین کو اپنی ملکیت سمجھ کر مقابلے منعقد کرتی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ براہ راست قبضے اور غیر قانونی آبادکاریوں کی مدد کر رہی ہیں۔ اسرائیلی اسپورٹس کے تمام سطحوں کی ملی بھگت کو دیکھتے ہوئے، عالمی اسپورٹس اداروں کو اپنے قوانین، انسانی حقوق کی پالیسیوں اور ڈسپلنری کوڈز نافذ کرنے چاہئےاور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رہنما اصولوں کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ ٹربیونل کا فیصلہ: غزہ میں نسل کشی ہورہی ہے، عالمی برادری سے اقدام کا مطالبہ
ویلاریو نے مزید کہا کہ’’ اسرائیلی کھلاڑی فوجی ہیں، اور کچھ نے تو غزہ کی تباہی کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ کلب اور ایسوسی ایشن نے اسرائیلی فوج کی عوامی طور پر حمایت کی ہے۔ویلاریو نے کہا کہ فیفا اور یوئیفا، جو یوکرین پر جنگ کی وجہ سے روس اور بیلاروس کو فوری طور پر مقابلوں سے نکال چکے ہیں، جبکہ انہوں نے اسرائیل کو جوابدہی سے بچانے کے لیے اپنے قانونی اصولوں کو نظر انداز کیا ہے۔‘‘چونکہ فیفا یا یوئیفا کے لیے ایسے معاملات میں کوئی بیرونی نگرانی کا میکانزم موجود نہیں، اس لیے وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ یہ اسپورٹس میں عدم مساوات کی عکاسی ہے۔‘‘ویلاریو نے مزید کہا کہ غزہ کے کھلاڑیوں کو کورٹ آف آربیٹریشن فار اسپورٹ (سی اے ایس) یا انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) جیسی بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کا کوئی حق نہیں۔"غیر ریاستی ادارہ آئی سی سی میں کیس نہیں لا سکتے، اور نجی تنظیموں (جیسے فیفا) پر وہاں براہ راست مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ لیکن اس کے باوجود ان تنظیموں کے افراد، جیسے مسٹر انفانٹینو اور مسٹر سیفرین، کے خلاف آئی سی سی کے دائرہ کار میں آنے والے جرائم میں ذاتی مدد کرنے پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔‘‘
ویلاریو نے بین الاقوامی اسپورٹس قانون میں نئے ضوابط یا میکانزم متعارف کرانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس کی ہمیشہ ضرورت تھی، اور اب روس اور اسرائیل کےساتھ غیر مساوی سلوک نے اس ضرورت کو اجاگر کر دیا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ’’ پورا نظام شدید طور پر سیاست زدہ ہوچکا ہے، جس پر انفانٹینو اور سیفرین جیسے سیاسی شخصیات غلبہ رکھتی ہیں جو اصولوں کے بجائے سیاست اور طاقت کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔عوام کو مل کر اس ناانصافی اور منافقت کو مسترد کرنا چاہیے اور ان اداروں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے، ان کے سپانسرز سے خریداری سے انکار کرنا چاہیے، اور اسرائیل کی شرکت والے کسی بھی مقابلے کو دیکھنے سے انکار کرنا چاہیے۔‘‘