Updated: October 27, 2025, 10:01 PM IST
| İstanbul
استنبول میں منعقدہ چار روزہ غزہ ٹربیونل نے اپنے حتمی فیصلے میں اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس عمل کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کرے۔ بین الاقوامی ماہرینِ قانون اور انسانی حقوق کے علمبرداروں پر مشتمل جیوری نے کہا کہ جب حکومتیں خاموش ہوجائیں تو شہریوں کو آواز بلند کرنا چاہئے۔
غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہورہے ہیں۔تصویر: آئی این این
غزہ ٹربیونل نے اتوار کو استنبول میں اپنے حتمی نتائج اور ’’اخلاقی فیصلہ‘‘ جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف منظم نسل کشی کر رہا ہے، اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس غیر انسانی عمل کو روکنے کیلئے فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔ یہ فیصلہ چار روزہ عوامی سماعتوں کے اختتام پر سامنے آیا، جہاں بین الاقوامی ماہرینِ قانون، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور گواہوں نے ثبوت اور شہادتیں پیش کیں جنہیں انہوں نے ’’منظم جرائم‘‘ قرار دیا۔ فیصلہ پروفیسر کرسٹین چنکن نے پڑھ کر سنایا، جنہوں نے جیوری کی سربراہی کی۔ جیوری نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’جب قانون کو طاقت کے ذریعے خاموش کر دیا جائے تو ضمیر ہی آخری عدالت بن جاتا ہے۔‘‘ اراکین نے واضح کیا کہ یہ ٹربیونل ’’اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں جاری نسل کشی اور اس کیلئے بین الاقوامی سطح پر جوابدہی کی کمی کے خلاف سول سوسائٹی کا ردعمل ہے۔‘‘
جیوری کے مطابق،’’غزہ میں جاری نسل کشی پوری انسانیت کیلئے خطرہ ہے۔ جب حکومتیں خاموش رہیں تو عوامی آواز کو اٹھنا چاہئے۔‘‘ ٹربیونل نے کہا کہ اس کا کام فلسطینی عوام کے خلاف جاری نسل کشی کی حقیقت کو ثابت کرنے والا ایک تاریخی ریکارڈ ہے، اور اس نے عالمی سطح پر احتجاجی مظاہروں، ریلیوں، فلوٹیلا، ہڑتالوں اور دیگر عوامی اقدامات کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ’’یہ اعلان اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے نشر کئے جانے والے سیکوریٹی کے مسلسل بیانیے کے خلاف ایک اخلاقی جواب ہے اور اس نے اس زبان کو مسترد کیا جو فلسطینیوں کی تکالیف کو محض انسانی بحران کے طور پر پیش کرتی ہے۔
جرائم کی تفصیل
ٹربیونل نے اسرائیل کے اقدامات کو ’’جاری نسل کشی‘‘ اور ’’منظم قتل و غارت‘‘ قرار دیا جس میں رہائشی علاقوں، اسپتالوں، اسکولوں، پانی، بجلی، صفائی اور ثقافتی مراکز کی تباہی شامل ہے۔ جیوری نے واضح کیا کہ ’’بھوک کو ہتھیار بنانا، طبی امداد سے انکار اور جبری نقل مکانی جنگ کے ضمنی نقصانات نہیں بلکہ نسل کشی کے آلات ہیں۔‘‘ نسل کشی کے علاوہ اسرائیل پر درج ذیل جرائم کے الزامات بھی عائد کئے گئے:
(۱) خوراک، پانی اور طبی سہولیات کی منظم تباہی
(۲) فلسطینی ثقافتی ورثے اور یادداشت کی بربادی
(۳) ماحولیاتی تباہی اور آلودگی
(۴) صحت کی سہولیات اور عملے کو نشانہ بنانا
(۵) فلسطینی خواتین کی تولیدی صحت کو نشانہ بنانا
(۶) طلبہ، اساتذہ اور صحافیوں کے قتل و اغوا کے ذریعے ’’تعلیم اور علم کی نسل کشی‘‘
(۷) ملی، سیاسی اور سماجی لیڈروں کے قتل، جنسی تشدد اور گمشدگیاں
عالمی طاقتوں کی ملی بھگت
رپورٹ میں امریکہ اور مغربی حکومتوں پر غزہ نسل کشی میں اسرائیلی شراکت داری کا الزام لگایا گیا۔ جیوری نے کہا کہ یہ حکومتیں اسرائیل کو سفارتی تحفظ، ہتھیار، انٹیلی جنس اور فوجی مدد فراہم کر رہی ہیں، جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ میڈیا، تعلیمی اداروں، بینکوں، ٹیکنالوجی کمپنیوں اور مغربی ذرائع ابلاغ پر بھی اسرائیلی بیانیے کے فروغ اور ’’نسل کشی کی سیاسی معیشت‘‘ کو جاری رکھنے کا الزام عائد کیا گیا۔
سفارشات اور مطالبات
ٹربیونل نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ:
(۱) اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو سیاسی، عسکری اور اقتصادی طور پر جوابدہ ٹھہرایا جائے
(۲) اسرائیل کی اقوامِ متحدہ کی رکنیت معطل کی جائے
(۳) فلسطینی علاقوں میں بین الاقوامی امن فورس تعینات کی جائے
(۴) صہیونی ڈھانچے کو ختم کر کے مساوات، انصاف، اور فلسطینیوں کے حقِ واپسی پر مبنی ایک نیا سیاسی نظام قائم کیا جائے
جیوری نے اپنے فیصلے کا اختتام ان الفاظ پر کیا:’’خاموشی غیر جانبداری نہیں بلکہ شریکِ جرم ہونے کے مترادف ہے۔ برائی کے سامنے خاموش رہنا انسانیت سے غداری ہے۔‘‘