Inquilab Logo

سنگھم جیسی فلمیں سماج میں غلط پیغام دے رہی ہیں: جسٹس پٹیل

Updated: September 24, 2023, 12:42 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai

پولیس فائونڈیشن کے سالانہ جلسے میں پولیس فورس کی اصلاح کے موضوع پر تقریر کے دوران ہائی کورٹ کے سینئر جج کا اظہار خیال.

Senior High Court Judge Gautam Patel. Photo. INN
ہائی کورٹ کے سینئر جج گوتم پٹیل۔ تصویر:آئی این این

انڈین پولیس فائونڈیشن کے سالانہ جلسہ اور پولیس فورس کی اصلاح کیلئے منعقد کئے گئے ایک پروگرام میں جمعہ کو بامبے ہائی کورٹ کے سینئر جج گوتم پٹیل نے سنگھم جیسی فلموں اور ان کے ہیرو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قانون کو نظر انداز کرکے فوری پر انصاف دینے والے کردار سماج میں انتہائی  غلط پیغام دے رہے ہیں۔
’’اس وقت تک اصلاح نہیں ہوسکتی جب تک ہم خود کو تبدیل نہ کرلیں‘‘
جمعہ کو  نہرو سینٹر ورلی میں جسٹس گوتم پٹیل نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی اس وقت تک اصلاح نہیں ہوسکتی جب تک ہم خود کو تبدیل نہ کرلیں لیکن سماج کے تقریباً ہر طبقہ میں پولیس کے بدمعاش، بدعنوان اور غیر جوابدہ ہونے کی شبیہ بنی ہوئی ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’البتہ جب عوام کو محسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کررہی اور  ایسے میں جب پولیس کسی عصمت دری کے ملزم کو مبینہ طور پر فرار ہوتے ہوئے انکائونٹر میں مار دیتی ہے تو لوگ خوشی مناتے ہیں، وہ مان لیتے ہیں کہ نہ صرف ایسا کرنا درست ہے بلکہ اس طرح انصاف بھی مل گیا لیکن کیا واقعی اس طرح انصاف ملتا ہے؟ یہ نظریہ وسیع پیمانے پر سماج میں جڑ پکڑرہا ہے اور خاص طور پر ہندوستانی سنیما میں یہ دکھایا جارہا ہے۔‘‘
فلموں میں ججوں کی منفی شبیہ پر تبصرہ  
جسٹس پٹیل کے مطابق’’ فلموں میں عام طور پر ججوں کو نرمی سے بات کرنے والا، ڈرپوک، موٹے چشمے پہنے ہوئے اور انتہائی خراب طریقے سے کپڑے پہنے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ فلموں میں پولیس کو ججوں کے خلاف دکھایا جاتا ہے کہ جج قصوروار کو بری کردیتے ہیں اور پھر ہیرو تنہا انصاف دلاتا ہے۔‘‘
سنگھم جیسی فلموںکا حوالہ دیا  
انہوں نے خاص طورپر سنگھم فلم کا نام لے کر کہا کہ اس فلم کے اخیر میں ایسا ہی کچھ دکھایا گیا ہے اور یہی باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس طرح انصاف مل گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس طرح انصاف ہوتا ہے؟ اس سے سماج میں بہت  غلط اور منفی پیغام جاتا ہے۔‘‘
’’اتنی بے صبری کیوں ہے؟ ‘‘
جسٹس پٹیل نے کہا کہ ’’اتنی بے صبری کیوں ہے؟ کسی بھی معاملے کو ایک عمل سے گزرنا ہوگا جس میں ہم یہ طے کرتے ہیں کہ کوئی قصوروار ہے یا بے قصور۔ یہ عمل وقت طلب ہوتا ہے... اور اسے وقت طلب ہونا ہی ہے... اس کی وجہ اس عمل کے بنیادی اصول ہیں جس میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی فرد کی آزادی چھن نہ جائے۔ اگر اس عمل کو ’شارٹ کٹ‘ کے چکر میں چھوڑ دیا جائے تو ہم قانون کی حکمرانی کو پلٹ کر رکھ دیں گے۔‘‘
ایک اچھا موقع جو گنوادیا گیا
انہوں نے اُترپردیش کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس پرکاش سنگھ کو سلامی  پیش کرتے ہوئے کہا کہ’’ انہوں نے پولیس فورس کی اصلاح کے لئے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضداشت داخل کی تھی لیکن اس پٹیشن کو پولیس کی اصلاح تک ہی محدود رکھ کر ۲۰۰۶ء میں فیصلہ سنایا گیا جبکہ اس میں پولیس کی اصلاح سے متعلق بہت سی دیگر باتوں کو شامل کئے جانے کاایک اچھا موقع تھا جو گنوادیا گیا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK