Inquilab Logo

تریپورہ سےرپورٹنگ پر خاتون صحافیوں کیخلاف ایف آئی آر

Updated: November 15, 2021, 10:11 AM IST | Agency | Agartala

خبر نگاری پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانےا ور مجرمانہ سازش جیسی دفعات عائد کردی گئیں، پہلے ہوٹل میں پہنچ کر دونوں نوجوان صحافیوں کو ہراساں کیاگیا پھر حراست میں لے لیا گیا

Samradhi and Sorna at the police station.Picture:INN
کریم گنج کے ایم ایل اےصدیق احمد نے یہ تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ وہ نیلم بازار پولیس اسٹیشن میں سمردھی اور سورنا کےساتھ ہیں۔ تصویر: آئی این این

 تریپورہ میں مسلم مخالف تشدد اور مساجد کے نشانہ بنائے جانے کے معاملوں کی زمینی حقیقت کو منظر عام پر لانے کیلئے   ’’گراؤنڈ رپورٹنگ‘‘کرنے والی ۲؍ نوجوان خاتون صحافیوںسمردھی سوکنیا اور سورنا جھا کے خلاف تریپورہ پولیس نے نہ صرف ایف آئی آر درج کرلی ہے بلکہ تریپورہ سے واپسی کے وقت اتوار کو انہیں آسام کے نیلم بازار پولیس اسٹیشن میں حراست میں بھی لے لیاگیاہے۔  
سمردھی سوکنیا اور سوَرنا جھا کو کیوں نشانہ بنایاگیا
  سمردھی سوکنیا اور سورنا جھایوٹیوب نیوز چینل ایچ ڈبلیو نیوز کیلئے تریپورہ سے گراؤنڈ رپورٹنگ کرنے گئی تھیں جہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے  تشدد میں نشانہ بنائی گئی مساجد کے ذمہ داران اور مقامی مسلمانوں  سے ملاقاتیں کرکے   تریپورہ میں   وی ایچ پی اور بجرنگ دل کی قیادت میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی تفصیلی رپورٹیں  تیار کیں۔ ان رپورٹوں کا کچھ حصہ ٹویٹر پر شیئر کرنے کے بعد ہی انہیں قانونی کارروائی کی  دھمکیاں  ملنے لگی تھیں۔ بالآخر وی ایچ پی کی شکایت پر تریپورہ پولیس نے ان دونوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرلیا۔ 
خبر نگاری پر سازش اور فرقہ وارانہ منافرت کا الزام
 حیرت انگیز طورپر سمردھی سوکنیا جو محض ۲۱؍ سال کی ہیں اوران کی  ہم عمر ساتھی سورنا جھا پر تریپورہ پولیس نے ۱۵۳؍اے کے تحت فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے، ۱۲۰؍ بی  کے تحت مجرمانہ سازش کا حصہ ہونے  اور دفعہ ۵۰۴؍  کے تحت  تریپورہ کو دانستہ طور پر بدنام کر نے کا ملزم بنا دیاگیا ہے۔  یہ ایف آئی آر کنچن داس نامی وی ایچ پی کارکن کی  شکایت پر درج کی گئی ہے۔ 
 پہلے ہراساں کیاگیا پھر آسام میں تحویل میں لیاگیا
   ’ایچ ڈبلیو نیوز نیٹورک‘ سے وابستہ سمردھی سوکنیا اور سورنا جھا کوتری پورہ  پولیس کی ایما پر  آسام کے کریم گنج ضلع  میں نیلم بازار پولیس  اسٹیشن  میں  حراست میں لے لیاگیاہے۔ آسام پولیس کے مطابق ان کے پاس سوکنیا یا سورنا کے خلاف کوئی شکایت نہیں ہے تاہم انہوں نے تریپورہ پولیس کی  درخواست پر انہیں تحویل میں لیا ہے۔  اس سے قبل  اتوار کی صبح  سورنا جھا نے  ٹویٹ  پر اطلاع دی تھی  کہ ’’گزشتہ رات تقریباً ساڑھے ۱۰؍ بجے، پولیس ہمارے ہوٹل کے باہر آئی، لیکن اس وقت انہوں نے ہم سے بات نہیں کی۔ جب ہم صبح ساڑھے ۵؍ بجے ہوٹل سے نکلنے لگے تو پولیس نے ہمیں روک لیا اور ہمارے خلاف ایف آئی آر کی اطلاع دی اور پوچھ گچھ کیلئےدھر م نگر تھانہ چلنےکوکہا۔‘‘  انہوں نے اپنی پوسٹ میں ایف آئی آر کی کاپی بھی شیئر کی تھی۔ خبر ہے کہ ان کے خلاف دوسری ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی ہے۔  ان دونوں خاتون صحافیوں نے گومتی نگر ضلع میںایک عبادتگاہ کے ہال کو نذر آتش کرنے اور مذہبی کتاب کی بے حرمتی سے متعلق  ویڈیوز سوشل میڈیا  پر شیئر کئے تھے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ جس ویڈیو کو سوکنیا نے شیئر کیا ہے وہ ایڈٹ کیا ہوا ہے۔تری پورہ پولیس نے کہا ہے کہ وہ دونوں  صحافیوں کو آسام  سے واپس  تریپورہ لے جارہی ہے۔
وزارت داخلہ نے بھی مساجد پر حملوں کی تردید کی
 قابل ذکر ہے کہ مرکزی  وزارت داخلہ نے بھی گزشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ ماضی قریب میں تریپورہ میں کسی بھی مسجد کے ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے اور لوگوں کو پرسکون رہنا چاہئے اور ایسی فرضی خبروں سے گمراہ نہیں ہونا چاہئے۔
صحافیوں کی گرفتاری کی شدید مذمت
 خبر نگاری پر صحافیوں کو نشانہ بنانے کی چہار سو مذمت ہورہی ہے۔اس سے قبل  سوشل میڈیا پر تریپورہ تشدد سے متعلق پوسٹ کی وجہ سے ۱۰۲؍ افراد کے خلاف یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا جاچکاہے جبکہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے  ۲؍ اراکین جو سپریم کورٹ کے وکیل ہیں،  کے خلاف بھی یو اے پی اے عائد کردیاگیاہے۔ سوکنیا اور سورنا  کے خلاف کارروائی کی ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صحافتی آزادی اور صحافیوں کے حقوق کیلئے سرگرم امریکی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ  جرنلسٹس(سی پی جے)‘  نے بھی ٹویٹ کرکے تشویش کا اظہار کیا  ہے۔  تنظیم نے سوکنیا اور سورنا کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔ سیاسی پارٹیوں  اور حقوق انسانی کے علمبرداروں نےبھی  تریپورہ  حکومت کی اس حرکت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے صحافتی آزادی کا گلا گھونٹنے کی کوشش قراردیاہے۔ 

tripura Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK