Inquilab Logo

صدیق کپن کیس میں ۲۲؍ ماہ بعد پہلی رہائی الہ آباد ہائیکورٹ نےڈرائیورکو ضمانت دی

Updated: August 25, 2022, 9:53 AM IST | new Delhi

جمعہ کو سپریم کورٹ میں کپن کی درخواست پر شنوائی، یو اے پی اے کیس میں  ساتھی ملزم کو ضمانت ملنے کے بعد کپن کے اہل خانہ کی بھی امید بندھ گئی

Police taking Siddique Kapan to court along with co-accused. (file photo)
پولیس صدیق کپن کو ساتھی ملزمین کے ساتھ کورٹ میں لے جاتے ہوئے۔ (فائل فوٹو)

منگل کو الہ آباد ہائی کورٹ نے  صدیق کپن کے ساتھی ملزم محمد عالم کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔  اس بیچ بدھ کو سپریم کورٹ میں صدیق کپن کی ضمانت کی عرضی پیش ہوئی جس پر کورٹ نے جمعہ کو سماعت کا فیصلہ کیا۔  صدیق کپن کی ضمانت کی عرضی الہ آباد ہائی کورٹ مسترد کرچکا ہے جسے چیلنج کیا گیا ہے۔ 
 یاد رہے کہ محمد عالم اس گاڑی کے ڈرائیور تھے جس میں صدیق کپن   خبر نگاری کیلئے ہاتھرس جا رہے تھے۔ دونوں کوراستے میں ہی یوپی پولیس نے گرفتار کرلیاتھا۔ محمد عالم ۵؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء سے متھراجیل میں  ہیں۔ انہیں ضمانت پر رہا کرنے کافیصلہ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے سنایا ہے۔  محمد عالم کو صدیق کپن کی طرح ہی  تعزیرات ہند کی دفعہ ۱۵۳؍ اے  (فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا)،  ۲۹۵؍اے(جان بوجھ کر مذہبی جذبات کو مجروح کرنا)، ۱۲۴؍اے(ملک سے غداری)، ۱۲۰؍بی(مجرمانہ سازش)  کے ساتھ ساتھ آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن ۶۵؍ اور ۷۲؍ نیز یو اے پی اے کے سیکشن ۱۷؍ اور ۱۸؍  کے تحت ملزم بنایاگیاتھا۔ جسٹس رمیش سنہا اورسروج یادو کی بنچ میں محمد عالم کی ضمانت کی تائید میں دلیل پیش کرتے ہوئے ان کے وکیلوں نے کہا کہ وہ ڈرائیور کی حیثیت سے کپن صر ف اس مقام پر لے جارہے تھے جہاں وہ جانا چاہتے تھے،اس کے علاوہ اس معاملے سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ حالانکہ سرکاری وکیل نے دعویٰ کیا کہ محمد عالم پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے وابستہ ہیں  اور جو گاڑی وہ چلارہے تھے وہ ’’دہشت گردی کیلئے اکٹھا کی گئی رقم ‘‘ سے حاصل کی گئی تھی۔ بہرحال کورٹ نے عالم کو رہا کرنے کا حکم سناتے ہوئے کہا کہ ’’بادی النظر میں  عرضی گزار اس معاملے میں ملوث نظر نہیں آتا ، نہ ہی وہ ملک کے خلاف کسی سرگرمی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘
 اُدھر سپریم کورٹ میں بدھ کو ایڈوکیٹ ہیرس بیرن نے چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے صدیق کپن کا معاملہ  فوری سماعت کیلئے پیش کیا۔ ایڈوکیٹ پلّوی پرتاپ کے توسط سے داخل کی گئی اسپیشل لیو پٹیشن میں کورٹ کو آگاہ کیاگیا ہے کہ ہاتھرس جانے کا ان کا مقصد بطور صحافی اپنے فرائض منصبی نبھانا تھا۔ وکیل  نے دلیل دی کہ انہیں فرضی الزامات عائد کرکے گرفتار کیاگیاہے۔ کپن ۲۲؍ مہینے جیل میں گزار چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے کپن کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے ان کے ہاتھرس جانے کے مقصد کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ ہاتھرس میں ان کا کوئی کام نہیں تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK