کہا: دونوں ممالک کاتنازع ختم ہونے سے عالمی سطح پر بہتر اثرات ہونگے
EPAPER
Updated: November 16, 2020, 8:48 AM IST | Agency | Tehran
کہا: دونوں ممالک کاتنازع ختم ہونے سے عالمی سطح پر بہتر اثرات ہونگے
ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہتر تعلقات کی امید ظاہر کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تنازع ختم ہونے سے علاقائی اور عالمی سطح پر بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔ان کے بقو ل دنیا میں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور ا س کے پیش نظر صبر سے کام لینا ہی بہتر حکمت عملی ہوگی۔
’دی انڈپینڈنٹ فارسی‘ کی ایڈیٹر ان چیف کاملیا کو’ انسٹاگرام‘ پر براہ راست انٹرویو دیتے ہوئے محمود احمدی نژاد نے ایرانی سیاست، عالمی مسائل اورکورونا کی وبا کے ساتھ امر یکہ اور ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر اظہار خیال کیا۔سابق ایرانی صدر نے کہا کہ ایران کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ہمارے علاقے کے لئے بہت اہم اور فیصلہ کن ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات عالمی مسائل پر بہت اثرانداز ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دو عوامل ایسے ہیں جن وجہ سے دونوں ممالک تعلقات میں گرمجوشی اور تعمیری عنصر کی راہ میں حائل ہیں۔ اس میں پہلی وجہ مسابقت ہے۔ جب بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان مقابلہ ہوا دونوں نے شکست کھائی اور خطہ بھی متاثر ہوا۔ دونوں ملکوں کے درمیان مقابلے میں فتح کسی کو نہیں ملتی، ہر کوئی ہارتا ہے۔ اس لئے’مقابلہ تعمیری، برادرانہ دوستانہ تعاون پر مبنی ہونا چا ہئے۔ اس میں دونوں ملکوں، خطے اور پوری دنیا کا مفاد ہے۔ سابق نےصدر دوسری وجہ بیرونی ملکوں کی مداخلت کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ دونوں ملک ہمیشہ کیلئے اگر فیصلہ کرلیں کہ آپس کے مقابلے کو تعاون اور دوستی میں تبدیل کر دیا جائے تو کسی دوسری وجہ دوطرفہ تعلقات میں حائل ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اختلافات اور مقا بلہ آرائی کے باوجود ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہت سے معاملات مشترک ہیں۔ مَیں نے کئی مرتبہ سعودی عرب کا سفر کیا، خلیجی تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کی اور تمام خلیجی ممالک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ہم نے مضبوط اور برادرانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اچھے تعاون کو فروغ ملا لیکن بالآخر دونوں جانب سے کی جانے والی غلطیوں نے تعلقات کو سرد کر دیا۔
واضح رہے کہ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد دوبارہ سیاسی میدان میں سرگرم ہوگئے ہیں۔ ایران میں اگلے سال ہونے والے صدارتی الیکشن میں ایک بار پھر ان کا نام صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔سابق ایرانی صدور کے برعکس ان کا علاقائی مسائل پر مختلف نکتہ نظر ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کے ایسے لیڈروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے شام کے معاملے میں مداخلت کی مخالفت کی تھی اور خطے میں امن کی حامی رہے ۔