Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’سعودی -اسرائیل معاہدہ کیلئے فریم ورک تیار ہوچکاہے‘‘

Updated: October 01, 2023, 12:05 PM IST | Agency | Washington

امریکہ میں قومی سلامتی کےترجمان جان کِربی کا دعویٰ، اسے مشرق وسطیٰ میں بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دیا، کہا کہ فریقین کو کچھ قربانیاں دینی ہوں گی۔

US National Security Council spokesman John Kirby speaks to the media at the White House.Photo. INN
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کِربی وہائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے۔ تصویر:آئی این این

وہائٹ ہاؤس نے اپنی ثالثی سے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بہت جلد تاریخی معاہدہ کی امیدظاہر کی ہے۔اس معاہدہ کے تحت ریاض  نہ صرف تل ابیب کے وجود کو تسلیم کرلےگا بلکہ اس کے ساتھ ہی دونوں  ملکوں  کے درمیان امن معاہدہ پر دستخط بھی ہو جائیں  گے۔ یہ معاہدہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان معمول کے تعلقات کی راہ ہموار کرےگا۔ واشنگٹن میں وہائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کئے گئے ایک بیان میں  کہاگیا ہے کہ صدر بائیڈن کو امید ہے کہ مشرق وسطیٰ کا خطہ ایک بڑی تبدیلی کی جانب آگے بڑھ رہاہے۔ 
’ بنیادی فریم ورک‘ تیار ہوچکاہے
 امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کِربی نے وہائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران جمعہ کی شام بتایا کہ اس سلسلے میں ’فریم ورک‘ تیار ہوچکاہے۔ا ن کے مطابق ’’ فریقین  نے ضرب لگا دی ہے۔ میرے خیال سے ایک ایسا بنیادی فریم ورک تیار کرلیا گیا ہے جس پر عمل کر کے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں   نے اعتراف کیا کہ ’’ جس طرح کسی بھی پیچیدہ معاملے میں  ہوتا ہے، اس معاملے کو بھی تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہر کسی کو کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا اور کچھ نہ کچھ قربانیاں  دینی ہوں گی۔‘‘
 اسرائیل کو عرب دنیا میں  قبولیت ملنے کی امید
 اسرائیل کو امید ہے کہ جیسے ہی سعودی عرب اسے تسلیم کرلیگا ویسے ہی عرب دنیا میں  اس کی ’اچھوت‘ جیسی حیثیت ختم ہوجائے گی اور دیگر کئی ممالک بھی تل ابیب کے ساتھ معاہدہ کو تیار ہوجائیں گے۔ اب متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں ۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حال ہی میں  اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دونوں  ملک قریب آرہے ہیں اور مستقبل میں  امن معاہدہ ہوسکتاہے۔ 
’ فلسطین کو فراموش نہ کیا جائے‘
ذرائع کے مطابق سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں   سلامتی کی ضمانت اور امریکہ کے ساتھ نیٹو طرز کا دفاعی معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف فلسطینیوں   نے خادم حرمین شریفین سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنےکیلئے ہونے والے کسی بھی معاہدہ میں  ان کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ فلسطینی اتھاریٹی صاف طور پر کہہ چکی ہےکہ آزاد مملکت فلسطین کے قیام کے بغیر مشرق وسطیٰ میں  کبھی امن قائم نہیں  ہوسکتا۔ بتایا جارہاہے کہ اس نے اپنے مطالبات کی ایک فہرست بھی پیش کی ہے۔ 
اسرائیل پر فلسطین کیلئے رعایتوں کا دباؤ
اسرائیل کو تسلیم کرنے سے قبل فلسطینیوں  اور مسلم دنیا کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اسی ہفتے کے اوائل میں  سعودی وفد نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ ۱۹۹۳ء کے اوسلو معاہدہ کے بعد سعودی عرب کے کسی سرکاری وفد کا یہ مغربی کنارہ کا پہلا دورہ تھا۔ اس دورے میں  سعودی عرب نے ریاست فلسطین کے قیام پر زور دیا ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو ۔اس کے علاوہ ا مریکہ کی جانب سے اسرائیل پر دباؤ ہے کہ وہ معاہدہ کی کامیابی کیلئے فلسطین کو رعایتیں دے۔ اس دباؤ کے باوجود منظر نامہ واضح نہیں  ہے کہ فلسطین کو کس طرح  کی رعایتیں  مل سکتی ہیں  کیوں  کہ وزیر اعظم نیتن یاہو خود دائیں   بازو کی شدت پسند نظریات کے حامل ہیں اورانہیں   حمایت دینے والی پارٹیاں بھی فلسطین کیلئے کسی رعایت کیلئے مشکل سے ہی تیار ہوں گی۔ 
 کیا فلسطینی علاقوں سے یہودی بستیاں ہٹیں گی؟
فلسطین کی جانب سے جو بنیادی مطالبات ہیں  ان میں   ۱۹۶۷ء میں  قبضہ کئے گئے علاقوں  کو خالی کرنا اور فلسطینی علاقوں  پر غاصبانہ طریقے سے بنائی گئی بستیاں  ہٹانا ہے۔ دوسری طرف نیتن یاہو حکومت مبینہ طور پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں سےیہودی بستیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کرنے سے گریز کررہا ہے۔ دوسری طرف سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ اگر بائیڈن انتظامیہ سعودی-اسرائیل معاہدے میں ثالثی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ’’سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سب سے بڑا تاریخی معاہدہ ہو سکتا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK