Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’آزادی کا تعلق صرف جسم سے نہیں، ذہن بھی آزاد ہونا چاہئے‘‘

Updated: August 15, 2025, 4:02 PM IST | Iqbal Ansari/Shahab Ansari | Mumbai

یوم آزادی پر نوجوانوں کے تاثرات، کہا کہ پوری دُنیا میں عوام کوذہنی طور پر قید کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

یوم آزادی پرنوجوان نسل نے اپنے خیالات کا ا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں انگریزوں سے آزادی تو ملی لیکن بدقسمتی سے  فی الحال عوام کو ذہنی طورپر قید کرنے کی سازشیں زوروں پر ہیں۔انقلاب نے چند نوجوانوں سے اس بارے میں ان کے تاثرات بھی جاننے کی کوشش کی۔
 باندرہ مغرب  میں رہائش پذیر ۲۲؍ سالہ عرش عارف انصاری نے کہا کہ ’’آزادی کا مطلب تو میں وہی سمجھتا ہوں جو لغت میں اور دیگر معتبر کتابوں میں لکھا ہے اور جس کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے آباءواجداد نے ہر مذہب کے ماننے والے ہم وطنوں کے شانہ بشانہ جام شہادت نوش کیا تھا۔ آزادی کا مفہوم میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس کا مطلب صرف جیل یا قید خانہ  سے  باہر رہنا نہیں ہے۔ اگر انسان اپنے ملک میں گھر سے باہر چل پھر سکتا ہے تو آزادی صرف اس کا نام نہیں ہے۔ انسان جسمانی طور پر آزاد رہتے ہوئے بھی ذہنی طور پر قید ہوسکتا ہے ۔ یہ جسمانی قید سے کم نہیں اور پوری دنیا میں اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بھی فی الحال لوگوں کو ذہنی طور پر قید کرنے کی سازشیں زوروں پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹھیک یوم آزادی کے دن کئی مقامات پر گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ آزادی کو بچانے کیلئے ضروری ہے کہ تعلیم کو عام کیا جائے، نفرت کی سیاست کو ختم کیا جائے، قومی یکجہتی کو ترجیح دی جائے، ہم وطنوں کے ذہنوں سے ایک دوسرے کے تعلق سے پھیلی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اور ملک کا ہر شہری اس بات کو سمجھے کہ اگر کوئی بھی طبقہ پیچھے ہے تو ملک ترقی نہیں کرسکتا۔‘‘
 ممبرا کے رہنے والے شانو سلمانی (۳۰)  نے کہا کہ’’   جنگ آزادی میں علماء کرام نے بڑے پیمانے پر قربانیاں دیں۔ سبھی مذاہب کے ماننے والوں کی مشترکہ جد و جہد کے بعد ملک آزاد ہوا اور یہاں جمہوری نظام اور سیکولرزم قائم کیا گیا جس میں ہر مذہب کے ماننے کو اس کے مذہب پر عمل کرنے کی  آزادی دی گئی، اپنی رائے کے اظہار کا حق دیا گیالیکن گزشتہ کچھ برسوں سے حکمراں محاذ کی جانب سے ملک کی آزادی کی بنیاد، جمہوری نظام کو ختم کر کے دوبارہ آمرانہ نظامِ لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سبھی ہندوستانیوں کو ہمارے ملک کی آزادی، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور جمہوریت کو برقرار رکھنے کی فکر کرنا چاہئے۔‘‘
 بائیکلہ مغرب میں رہائش پذیر محمد شمام انصاری  (۱۸) نے کہا کہ ’’آزادی صرف جسمانی طو رپر قید سے باہر رہنے کا نام نہیں ہے ،آزادی کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی مجھے کنٹرول نہ کرے۔ اگر میں اپنے گھر پر رہتے ہوئے اپنی مرضی سے کھا نہیں سکتا، پہن نہیں سکتا، بول نہیں سکتا تو کیا فرق پڑتا ہے کہ حکومت کس کے پاس ہے۔ آزادی کو بچانے کیلئے بہت سے کام ہمیں اپنے آبا و اجداد نے کرکے دکھائے ہیں جن میں بنیادی بات تو یہی ہے کہ قومی یکجہتی پر خصوصی توجہ دی جائے، لوگ نفرت کی سیاست کا ہدف نہ بنیں اور وقت ضرورت اپنی آواز بلند کی جائے۔ آج کے دور میں قلم کی جگہ سوشل میڈیا لے رہا ہے تو اس کے ذریعہ بھی یہ پیغام ہر ایک کو دینا چاہئے کہ ہم جسمانی غلامی کے ساتھ عقلی اور ذہنی غلامی کے بھی خلاف ہیں۔ حکومت اگر کوئی ایسا قانون بناتی ہے جو ہمیں آئین میں دی گئی آزادی کے خلاف ہے تو عدالتیں موجود ہیں۔ ہمارے علماء کی جنگ آزادی میں قربانیوں کے تعلق سے جن لوگوں کو شبہ ہے، ان کیلئے آج بھی جیتی جاگتی مثال موجود ہے کہ حکومت کے غلط فیصلوں کو علماء کی جماعتیں ہی سب سے زیادہ عدالتوں میں چیلنج کرتی ہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK