جنوبی افریقہ کے صدر کے ترجمان نے بتایا کہ اس مرتبہ روایت کے برخلاف اعلامیہ کو پہلے ہی دن کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا تھا۔
جنوبی افریقہ میں اجلاس کے دوران جی ۲۰؍ممالک کے سربراہان ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑکر یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے۔ تصویر:آئی این این
جنوبی افریقہ کے صدر سِریل رامافوسا کے ترجمان ونسنٹ مگوینیا نے تصدیق کی ہے کہ جوہانسبرگ میں جی ۲۰؍ سربراہی اجلاس کے رہنماؤں نے اجلاس اعلامیہ کومنظوری دے دی۔ترک میڈیا کے مطابق انہوں نے عوامی نشریاتی ادارے ایس اے بی سی کو سنیچرکوبتایاکہ ’ہم اس متفقہ منظوری کے قریب پہنچ رہے تھے اور اب ہمارے پاس ایک منظور شدہ سمٹ اعلامیہ موجود ہے۔‘‘مگوینیا نے کہا کہ پروگرام میں ایک ’معمولی سی تبدیلی‘ ہوئی ہے، جس کے تحت سمٹ اعلامیہ کو روزِ اول کے ایجنڈے میں منتقل کیاگیاہے۔عمومی طورپراسے اختتام پر اپنایا جاتا ہے -دوطرفہ گفتگو کے دوران لیکن اس مرتبہ اس سوچ نے جنم لیا کہ اسے سیشن کے باقی حصے سے قبل اپنایا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ’’اعلامیہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ تنازعات کے حل، طاقت کے استعمال سے گریز اور تنازعات کے پُرامن حل کے لیے بین الاقوامی قوانین سمیت اقوامِ متحدہ کا چارٹر مرکزی رہنمائی کا نقطہ رہے گا۔‘‘اعلامیہ نےموسمیاتی بحران کی سنجیدگی پر بھی زور دیا اور عالمی سطح پر قابلِ تجدید توانائی کی صلاحیت کو ۳؍گنا بڑھانےکی بین الاقوامی کوششوں کی مضبوط حمایت کا اظہار کیا۔ جی ۲۰؍ رہنماؤں کا سربراہی اجلاس سنیچرکو جوہانسبرگ میں شروع ہوا جب مندوبین ۲؍ روزہ مذاکرات کے لیے جمع ہوئے۔
اس مہینے کے اوائل میں، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس ملاقات کے لیے کوئی امریکی نمائندہ جوہانسبرگ نہیں بھیجیں گے اور انہوں نےجنوبی افریقہ پر سفید افریقی آبادی کے خلاف ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں‘ کرنے کا الزام لگایا - جسے جنوبی افریقی حکومت نے بارہا بے بنیاد قرار دیا ہے۔ مگوینیا نے کہا:’’یہ بات مدِ نظر رکھنی چاہیے کہ ایک سے زیادہ ممالک ہیں۔ ہم ایک ملک کے لیے قوانین کو بدل نہیں سکتے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ’’ہمیں اُن لوگوں کا احترام کرنا چاہیےجو اس عمل کا حصہ رہے اور انتھک محنت کر کے اس جی ۲۰؍ کو کامیاب بنانے میں اپنا حصہ ڈالا، خاص طور پر اب جب کہ اعلامیہ بھی منظور ہو چکا ہے۔‘‘