Inquilab Logo

جی سیون سمٹ کے شرکاء نئی وباء سے بچنے کیلئے مشترکہ حکمت علمی پر متفق

Updated: June 13, 2021, 7:01 AM IST | London

اعلامیہ تیار،تفصیل آج عام کی جائے گی ۔ اجلاس ميں خصوصی دعوت پر شرکت کرنے والے ممالک آسٹريليا، جنوبی افريقہ، جنوبی کوريا اور ہندوستان کے نمائندوں سے بھی تبادلۂ خيال۔ آج سہ روزہ اجلاس کا آخری دن ہے، ماحولیاتی تبديليوں سے متعلق خطرات اور مسائل پر گفتگو کی جائے گی

US President Joe Biden with his French counterpart Emmanuel Macron. (Picture:PTI )
امریکی صدر جوبائیڈن، اپنے فرانسیسی ہم منصب ایمانوئل ماکروں کے ساتھ۔ ( پی ٹی آئی )

:ترقی یافتہ ممالک کے گروپ جی سيون کے اجلاس میں سنیچر کو  شرکاء کے  درمیان مستقبل میں کسی نئی عالمی وبا ءسے بچنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق  ہو گیا۔   اس کی کی تفصيل  آج  (اتوار کو)  عام  کی جائے گی۔ سنیچر کو  ديگر اہم موضوعات ميں چين اور روس کی وجہ سے لاحق چيلنجز بھی شامل ہيں۔ اس سہ روزہ اجلاس ميں خصوصی دعوت پر شرکت کرنے والے ممالک آسٹريليا، جنوبی افريقہ، جنوبی کوريا اور ہندوستان کے نمائندوں سے بھی سنیچر کو تبادلہ خيال کیا گیا۔ برطانيہ کے علاقے کاربِس بے ميں تين روزہ جی سيون سمٹ  جمعہ کو شروع ہوئی تھی۔ پہلے دن رکن ممالک نے غريب ملکوں کے لئے کورونا ويکسين عطيہ کرنے کا اعلان کيا۔  آج (اتوار کو) اس اجلاس کا آخری دن ہے، جس ميں ماحولیاتی تبديليوں سے متعلق خطرات اور مسائل پر گفتگو کی جائے گی۔
  سنیچر کو برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ کورنا وائرس کی وباء کو دنیا کیلئے ایک نہ بھرنے والا زخم نہیں بننے دیا جائے گا۔
 اجلاس کے  وقفہ کے دوران نامہ نگاروں نے صدر بائیڈن سے پوچھا کہ وہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن آئندہ  ملاقات کرنے والے ہیں، وہ اس موقع پر کیا پیغام دیں گے ؟ اس کے جواب میں امریکی صدر نے  کہا کہ پوتن کو پیغام دینے کے بعد میں آپ کو بتا دوں گا۔
   سنیچر کو کانفرنس  کے وقفہ میں عالمی لیڈروں کے درمیان ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اس دوران انسانی حقوق کے کارکنوںاور اداروں کی جانب سے مظاہرے  بھی ہوئے ۔ 
 ادھر ترقی يافتہ ریاستوں کے گروپ جی سيون کے رکن ممالک نے غريب ملکوں ميں بنيادی ڈھانچے ميں بہتری کے لئے ايک وسيع تر منصوبے کو حتمی شکل دے دی ہے۔ امير ممالک غريب ریاستوں کے انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے سرمايہ کاری کريں گے۔ اس کا مقصد چين کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ برطانيہ کے ساحلی علاقے کاربِس بے ميں جاری تين روزہ جی سيون سمٹ  کی اہم بات يہ ہے کہ اس ميں دو برس بعد پہلی مرتبہ رکن ملکوں کے سربراہان بالمشافہ مل رہے ہيں۔ ورنہ کورونا کی وبا ءکی وجہ سے گزشتہ ڈيڑھ سال سے تقريباً تمام سربراہی اجلاس آن لائن ہی ہوتے رہے ہيں۔ جی سيون گروپ برطانيہ، کينيڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امريکہ پر مشتمل ہے۔
 جی سيون سربراہی اجلاس کے دوسرے دن کے اہم موضوعات ميں روس کی وجہ سے لاحق چيلنجز بھی شامل ہيں۔  سنیچر کو  ميانمار ميں فوجی بغاوت، ہانگ کانگ ميں جمہوری اقدار کی بقا کے لئے جدوجہد اور مشرقی يوکرین ميں مبينہ روسی مداخلت جیسے کئی اہم امور پر بھی بات چيت ہوئی ۔ 
وا ضح رہے کہ پہلے روس بھی اس کاگروپ کا حصہ تھا لیکن یو کرین میں ماسکو کی مداخلت اوردیگر مسائل میں یو رپی ممالک سے سنگین اختلافات کے بعد اسے اس گروپ سے علاحدہ کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے روس اور جی سیون ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK