Inquilab Logo

غزہ : جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کا امکان

Updated: March 04, 2024, 1:35 PM IST | Agency | Gaza

۶؍ہفتوں کیلئے جنگ بند ہوگی اوراب گیند حماس کے کورٹ میں ہے: امریکہ ۔ اس دوران قیدیوں کے تبادلے سے متعلق تنازع بھی سامنےآیا۔

The United States is dropping food packets from an airplane in Gaza. Photo: INN
امریکہ کی طرف سے غزہ میں طیارے سے کھانے کے پیکٹ گرائے جارہے ہیں۔ تصویر : آئی این این

امریکی حکام نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے مجوزہ معاہدے کو اسرائیلی حکام نے قبول کرلیا ہے اوراب گیند حماس کے کورٹ میں ہے۔ ’ العربیہ‘ کے ذرائع نے اتوار کو اطلاع دی ہے کہ حماس اپنا حتمی جواب جلد ہی ثالثوں کو بھیجے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حماس کا ایک وفد آنے والے گھنٹوں میں مصر میں ثالثوں کے ساتھ ملاقات کرےگا۔ اس دوران جنگ بندی کی مدت اور قیدیوں کی تعداد پر تنازع بھی سامنے آیاکیونکہ حماس نے جنگ بندی کے دنوں اور رہا کئے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ تل ابیب نے ان قیدیوں کے ناموں کو مسترد کردیا جنہیں حماس رہا کروانا چاہتا ہے۔ 
اسرائیل کی جانب سے ثالثوں سے مطالبہ
 اسرائیل نے ثالثوں سے ایک تفصیلی بیان طلب کیا جس میں بقیہ قیدیوں کی تعداد، جنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ ان میں سے ہر ایک کی صحت کی مکمل حالت اور تفصیل شامل تھی۔ اسرائیل کو حماس کے زیر حراست فوجی قیدیوں کی تعداد کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ تل ابیب نے ثالثوں سے مطالبہ کیا ہےکہ وہ قیدیوں کی حالت جاننے، ان کی جانچ اور ادویات کی آمد کی تصدیق میں زیادہ کردار ادا کریں جبکہ حماس نے ثالثوں کو مطلع کیا کہ اس کے پاس صرف کچھ قیدی ہیں اور وہ ان کی شرائط کا تعین کرنے کیلئے دھڑوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ اس کیلئے وقت درکار ہے کیونکہ اس کے پاس موجود قیدیوں کی مکمل تعداد کے حوالے سے تصدیق شدہ یا حتمی فہرست موجود نہیں ہے۔ 
 حماس نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ اسرائیل فلسطینی نظربندوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے۔ 
 حماس نے ثالثوں سے کہا کہ اسرائیل ۷؍اکتوبر کے حملے کے بعد حراست میں لئے گئے افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرے۔ 
 یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ثالث ایک معاہدے کے مسودے پر کام کر رہے ہیں جس میں رمضان المبارک میں دن بھر اور ۳؍مرحلوں میں غزہ میں امداد کا داخلہ شامل ہے۔ متعدداسپتالوں میں طبی سروسیز بحال کرنے اور فوری طبی سامان لانے کیلئے کام کرنا مجوزہ معاہدے کا حصہ ہے ساتھ ہی امداد کے داخلے کیلئے کراسنگ کو مکمل طور پر دوبارہ کھولنے، زخمیوں کی سب سے بڑی تعداد کو بغیر کسی پابندی کے وہاں سے جانے کی اجازت دینا شامل ہے۔ 
جنگ چھٹے مہینے کے قریب پہنچ گئی، ۳۰؍ہزارہلاکتیں 
واضح رہے کہ غزہ - اسرائیل جنگ چند دنوں کے بعد چھٹے مہینے میں داخل ہو رہی ہے جس میں ۳۰؍ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ فوری جنگ بندی کے بین الاقوامی مطالبات کے درمیان ایک امریکی اہلکار نے گزشتہ روز کہا کہ غزہ میں مجوزہ جنگ بندی کی قسمت کا انحصار حماس کے ’ایک مخصوص زمرے کے قیدیوں ‘ کو رہا کرنے پر رضامندی کے بعد اسرائیل کی جانب سے معاہدے کے وسیع خاکہ کو قبول کرنےپر ہے۔ اس اہلکار نےنام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ کہ گیند اب حماس کے کورٹ میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فریم ورک موجود ہے اور اسرائیلیوں نے اسے عملی طور پر قبول کر لیا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ غزہ میں ۶؍ ہفتے کی جنگ بندی آج سے شروع ہو سکتی ہے اگر حماس قیدیوں کی مخصوص قسم کی رہائی پر رضامند ہو جائے۔ 
 جنگ بندی کے حوالے سے سوال پر امریکی اہلکار نے یہ بھی کہاتھا کہ ` یہ جنگ بندی ۶؍ہفتوں پر محیط ہو گی بشرطیکہ حماس اسرائیل کے ان یرغمالوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہو جائے، جن کی حالت اچھی نہیں ہے اور وہ بیمار ہیں یا زخمی حالت میں ہیں، اس لئے ان کی فوری رہائی ضروری ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں یہی چاہتا ہوں کہ حماس اتفاق کرتی ہے تو جنگ بندی ہوگی۔ انہوں نے امید ظاہر کی معاہدے کی صورت میں پائیدار امن کی امید پیدا ہوگی اور جنگ بندی کے نتیجے میں امدادی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہو سکے گا۔ واضح رہے اقوام متحدہ نے انتباہ دیا ہے کہ شمالی غزہ قحط کی زد میں ہے۔ 
امریکہ کی جانب سے غزہ میں ہوائی جہاز سےامداد
  گزشتہ صبح پہلی بار غزہ میں ہوائی جہاز کے ذریعے خوراک کے پیکٹ پھینکے گئے۔ امریکہ کی طرف سے یہ اقدام ایک سو سے زائد فلسطینیوں کی خوراک کے حصول کے دوران ہلاکتوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی اس کارروائی کی ہر طرف سے مذمت کی جارہی ہے۔ تاہم امریکی اہلکاروں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ہوائی جہاز کے ذریعے غزہ میں امداد تقسیم کرنے کااقدام کافی نہیں ہو سکتا، نہ ہی اس طرح کی کارروائی زمینی راستے سے امدادی سرگرمیوں کا متبادل ہو سکتی ہے۔ اب امریکہ نے اندرونی و بیرونی دباؤ کی وجہ سے اپنی کچھ بحریہ کی مدد سے بھی غزہ میں امدادی سامان کی فراہمی پر غور شروع کر دیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK