Inquilab Logo Happiest Places to Work

کاش! تمہاری قبر پر آسکتی مگر، اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہونے والوں کیلئے خطوط

Updated: June 07, 2025, 3:33 PM IST | Gaza

جنگ زدہ فلسطینی خطے غزہ پٹی میں فلسطینیوں نے اسرائیلی بمباری کے دوران عید الاضحی منائی- بے گھر فلسطینیوں نے جاں بحق ہوجانے والے اپنے پیاروں کو خط لکھ کر انہیں یاد کیا- ان خطوط کے ذریعے اسرائیلی جارحیت کے درمیان فلسطینیوں کے درد اور تکلیفوں کا احساس ہوتا ہے-

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

غزہ کے صحافی محمد سلیمان نے اسرائیلی بمباری کے دوران عید الاضحی کے موقع پر غزہ کے والدین اور دیگر متاثرین سے شہید ہونے والے ان کے پیاروں کے متعلق بات کی- سلیمان نے اپنے تجربات کی روشنی میں کہا کہ "کسی بھی والدین سے ان کے شہید بچوں کے متعلق پوچھنے کیلئے کسی اسکرپٹ کی ضرورت نہیں- بہت سے والدین کی حالت ایسی تھی جن سے بات کرنے کی میری ہمت نہیں ہوئی- ان کے چہروں سے درد جھلک رہا تھا- کچھ والدین میرے سوالوں کے جواب میں خاموش رہیں، متعدد کی آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے اور کچھ نے میری جانب غصے سے دیکھا-" میرے لوگ جس درد اور تکلیف کا سامنا کر رہے ہیں کوئی اس کا تصور نہیں کر سکتا اور دل اسے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں- ذیل میں غزہ پٹی کے بے گھر متاثرین کے خطوط پیش کئے جارہے ہیں جنہوں نے عید الاضحی کے موقع پر  اپنوں کی غیر موجودگی اور انہیں کھونے کا غم بیان کیا- 
اشرف النجار (۵۳)، تمہاری اہلیہ رسمیہ النجار (۶۰) کی طرف سے
میرے پیارے اشرف، میرے شوہر، میری محبت اور میرے لئے دنیا کے سب سے قیمتی شخص- یہ اسے عید کہتے ہیں، لیکن ایک اور بدمزہ عید ہے اور تم ہمارے ساتھ نہیں ہو- ۶؍ فروری ۲۰۲۴ء کو تمہارے شہید ہونے کے بعد میں اور تمہارے ۸؍ بچے نقل مکانی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور بے گھر ہیں- آج ہی ہم المواسی آئے ہیں اور یہ ۱۵؍ ویں مرتبہ ہے جب ہم بے گھر ہوئے ہیں- ہم نے اس شیلٹر سے نقل مکانی کرنے کے بعد، جو اب انخلاء کے زون کا حصہ بن چکا ہے، یہاں اپنا خیمہ بنایا ہے- کاش! کہ میں تمہاری قبر پر جاسکتی- تم سے اپنا درد بیان کر سکتی، اور تم سنتے، جیسا تم اس نشانہ باز کی گولی کا نشانہ بننے سے قبل سنا کرتے تھے جس نے پانی کی بوتل بھرنے کے دوران بے دردی سے تمہیں قتل کردیا- لیکن تمہاری قبر نہیں ہے- روزانہ میں اور تمہارے بچے الناصر اسپتال کے صحن میں تمہاری لاش کو تلاش کرتے ہیں جہاں اسرائیلی حملے سے قبل ہم نے تمہیں دفن کیا تھا- جب وہ وہاں سے نکلے تب ہمیں تمہارا کفن تمہارے نام کے ساتھ ملا لیکن اس میں تمہاری لاش نہیں تھی- تب سے ہم تمہاری لاش کو تلاش کر رہے ہیں- میرے پیارے، تمہارے بغیر زندگی کتنی بے رحم ہوگئی ہے- تم ہمارا سہارا تھے، ہماری پناہ گاہ تھے- تمہارے پوتے پوتیاں مجھ سے پوچھتے ہیں کہ دادا کہاں ہیں- تمہارے بغیر عید تاریک ہے- یہ عید نہیں- صرف غم ہی غم ہے-" 
غسان ابراہیم (۴۰)، تمہاری اہلیہ اولا فیض (۳۹) کی طرف سے
۱۸؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء، میرے پیارے تمہارے جانے کے بعد سے اب تک ہمارے آنسو خشک نہیں ہوئے- تمہیں اس وقت قتل کیا گیا جب تم خان یونس کے مشرق میں واقع ہمارے قصبے خزاعہ کی پائپ لائن کی مرمت کر رہے تھے- میونسپل کے ایک اہلکار کے مطابق تم نے یہ کام کرنے سے قبل اسرائیلی فوج سے اجازت لی تھی جیسا کہ تم نے اس سے پہلے کیا تھا- پھر بھی انہوں نے اس وقت تم پر اور تمہارے ساتھیوں پر بمباری کی جب تم اپنی قوم کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہے تھے- میں تمہیں الوداع بھی نہ کرسکی- تم ہماری پیاس بجھانے گئے تھے اور انہوں نے ہمیں زندگی بھر کیلئے تمہارے لئے پیاسا چھوڑ دیا- تم کوئی عام انسان نہیں تھے، نہ زندگی میں اور نہ ہی موت کے بعد- ہمیں تمہارے لفظوں، تمہاری روح اور تمہاری مسکراہٹ کیلئے ترستا چھوڑ دیا گیا- تم اپنی موجودگی سے ہماری عید کو خوبصورت بناتے تھے- جنگ اور بے گھر ہونے کی تکلیف کے دوران تم ہماری تکلیفوں کو کم کرتے تھے- اب، اس ٹوٹے ہوئے خیمے میں ہم اپنی قربانی دے رہے ہیں، نہ کہ بھیڑ کی-  میں تم سے وعدہ کرتی ہوں، کہ ہم کبھی ہمت نہیں ہاریں گے- تمہارا بڑا بیٹا الیاس یونیورسٹی میں داخل ہوگیا ہے- کنان ہائی اسکول کے امتحانات کی تیاری کر رہی ہے- لایان ۹؍ ویں کلاس کی پڑھائی آن لائن کر رہی ہے اور محمد بھی اپنی تیسری جماعت کی پڑھائی اسی طرح کر رہا ہے- میرا یہ پیغام تمہارے اور ہم سب کیلئے ہے-"
محمد احمد (۱۸)، تمہاری والدہ سہیلہ احمد کی طرف سے (۴۸)
میرے پیارے محمد، جنگ کے دوران  جب تم شہید ہوئے تب سے میری دنیا تاریک ہوچکی ہے- تمہارے والد، تمہارے پانچ بھائی بہن اور میں غم میں زندگی بسر کر رہے ہیں- تمہارا چھوٹا بھائی فوزا، جو حال ہی میں دس سال کا ہوا ہے، کی حالت ایسی ہے کہ اس نے زندگی سے ہار مان لی ہے- اس نے بات کرنا بھی چھوڑ دیا ہے- ہم اب بھی تمہاری موجودگی کو محسوس کرتے ہیں- تمہاری مسکراہٹ اور نرم رویہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا- ہمارا گھر چلا گیا، ہماری زندگی تباہ ہوگئی- ہم بے گھر ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کر رہے ہیں- لیکن کوئی بھی غم تمہاری جدائی کے غم سے بڑا نہیں- میں دن رات تمہارے لئے روتی ہوں- مجھے یاد ہے کہ کس طرح تم اسکول سے آنے کے بعد اپنی چھوٹی گھوڑا گاڑی چلا کر لوگوں کی مدد کرتے تھے اور اس سے ملنے والی رقم سے ہمارا تعاون کرتے تھے- میں تمہارے الفاظ کبھی نہیں بھولوں گی- تم کہا کرتے تھے "امی! میں چاہتا ہوں کہ آپ ملکہ بن کر رہیں- میں دن رات کام کروں گا تاکہ آپ کو تکلیفیں نہ اٹھانی پڑیں- تمہارے جانے کے بعد ہر دن تکلیف سے گزر رہی ہوں- اس خیمے میں کوئی زندگی نہیں ہے، ہم موت سے قریب ہیں اور تم سے ملنے کا انتظار کر رہے ہیں- میں کمزور ہوچکی ہوں اور جو کوئی مجھے دیکھتا ہے کہتا ہے کہ میں ضعیف ہوں- تمہارے والد بھی- ہم جہنم میں رہ رہے ہیں لیکن یہ بھی تمہیں کھونے کے غم سے کم ہے- میں تمہاری قبر تک بھی نہیں جاسکتی، مقبوضہ فوج نے ہر جگہ قبضہ کر رکھا ہے-"
نادی سلوت (۳۴)، تمہارے والد سلیم سلوت (۶۲) کی طرف سے
میرے بیٹے ایک مرتبہ تم نے اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھا تھا کہ "میں نیک نہیں ہوں، لیکن خدا سے ڈرتا ہوں-" تم نے ۷؍ اگست ۲۰۲۴ء کو شہید ہونے سے قبل یہ الفاظ پوسٹ کئے تھے- تم ورلڈ سینٹرل کچن میں کام کرتے تھے- امداد سے گھرے ہوتے تھے لیکن تمہارے ہاتھ ہمیشہ خالی رہے- تم ایمانداری اور تقوی کا نمونہ تھے ویسے ہی جیسے تم اپنی ماں اور میرے فرمابردار بیٹے تھے- گزشتہ عید جب غزہ میں کوئی قربانی کا جانور خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا، تم نے ہماری خوشی کیلئے اتنے مہنگے داموں میں گوشت خریدا تھا- تم ہی میری بینائی تھے اور تم ہی دل کی دھڑکن بھی- مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے کرتے تم نے اپنی جان گنوا دی، تم اپنی کار سے امداد منتقل کررہے تھے حالانکہ وہ امداد کچن سے متعلقہ تھی- اب ہم تمہاری جدائی کا دکھ جھیل رہے ہیں، تمہارے والدین، تمہاری اہلیہ اور تمہارے بچے طلحی (۱۱)، دانا (۸)، نائیہ (۴)، جو اپنی چوتھی سالگرہ پر بارہا تمہارا پوچھ رہی تھی، اور ننھا یازان، جو تمہارے انتقال کے وقت صرف پانچ سال کا تھا- المواسی کے کیمپ میں آج بھی میں نے تمہاری شرٹ زیب تن کی ہے جہاں ہمارے چار گھر بمباری میں تباہ ہوگئے- میں نے تمہاری خوشبو سونگھنے کیلئے اسے پہنا ہے تاکہ تمہاری موجودگی کا احساس باقی رہ سکے- تم مجھے دیکھ کر ہی سمجھ جاتے تھے کہ میں کیسا محسوس کر رہا ہوں-"
عبداللہ حیدر الستال (۱۹)، تمہارے بھائی محمد الاستال (۱۶) کی طرف سے 
میرے بھائی عبداللہ کیلئے، میرے بڑے بھائی اور میرے دوست- ہمارے والدین کچھ بول نہیں پارہے- وہ غم میں ہیں اسی لئے ہم سب کی طرف سے میں لکھ رہا ہوں کیونکہ زخم اب بھی تازہ ہیں- ۸؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو المواسی پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی بمباری میں تم شہید ہوئے تھے- ٹینٹ کی پلاسٹک کی شیٹ پر اب بھی تمہارے خون کا داغ ہے- جب پوری فیملی خان یونس واپس چلی گئی تو تم المواسی میں کام کیلئے رکے تھے- 
تمہارے قتل کے پانچ دن پہلے ہم نے تمہیں دیکھا تھا- ہم پھر بے گھر ہوگئے اور وہی نقل مکانی کی ہے جہاں تم جاں بحق ہوئے تھے- اب بھی ایسا لگتا ہے کہ تم ہمارے درمیان ہوں- تم صرف ایک بھائی نہیں، ہمارا سائباں تھے- تم انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ہمارے تعاون کیلئے کام بھی کر رہے تھے- ہماری ماں آج بھی تمہارے خون آلودہ کپڑے کو اپنے سینے سے لگائے رہتی ہیں- وہ کہتی ہیں کہ اس سے تمہاری خوشبو آتی ہے اور والد مسلسل روتے رہتے ہیں- تمہارے جانے کے بعد دنیا تاریک ہوچکی ہے-  ہماری بہن ہالہ نے حال ہی میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے- طلحی ۱۲؍ سال کا ہوگیا ہے- میں اپنے آپ کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن تمہارے جانے کے بعد زندگی جیسے ختم ہوگئی ہے- ہمارے لئے کوئی عید الاضحی نہیں، کوئی جشن نہیں، صرف تمہاری جدائی کا غم ہے-" 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK