ڈونالڈ ٹرمپ کی شرانگیزی، غزہ کو ’ آزادی ژون‘ بناکر امریکہ کی نگرانی میں دینے کی تجویز، حماس نے کہا ’ غزہ برائے فروخت نہیں ہے.‘
EPAPER
Updated: May 17, 2025, 12:19 PM IST | Agency | Doha/Gaza
ڈونالڈ ٹرمپ کی شرانگیزی، غزہ کو ’ آزادی ژون‘ بناکر امریکہ کی نگرانی میں دینے کی تجویز، حماس نے کہا ’ غزہ برائے فروخت نہیں ہے.‘
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے غزہ کے تعلق سے ایک متنازع بیان دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کو ایک ’آزادی ژون‘ بنانے کیلئے تیار ہیں جس کی نگرانی خود امریکہ کرے گا۔ البتہ حماس نے ان کی اس اشتعال انگیز تجویز کا فوری طور پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے ’’ غزہ برائے فروخت نہیں ہے۔ ‘‘ یاد رہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اس سے قبل بھی بیان دے چکے ہیں کہ وہ غزہ کو پوری طرح خالی کروا کر وہاں نئی تعمیرات کروانا چاہتے ہیں۔ وہ ا سے ایک تجارتی یا سیاحتی مرکز بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ان دنوں مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں، ایک روز قبل وہ قطر میں ایک بزنس راؤنڈ ٹیبل سے خطاب کر رہے تھے، اس دوران انہوں نے کہا ’’ امریکہ غزہ پٹی کو ’آزادی ژون‘ بنانے کیلئے تیار ہےکیونکہ غزہ میں اب بچانے کو کچھ نہیں بچا، اسلئے امریکہ وہاں ’کچھ اچھا‘ کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘ٹرمپ کا کہنا تھا “میں نے فضائی تصاویر دیکھی ہیں، جہاں کوئی عمارت کھڑی ہوئی نہیں بچی ہے، لوگ ملبے کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جو ناقابل قبول ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا ’’اگر ضرورت پڑی تو میں فخر سے کہوں گا کہ امریکہ غزہ کو سنبھالے اور اسے ایک آزادی ژون بنائے، وہاں مثبت تبدیلی آئے۔ ‘‘ ٹرمپ نے کہا کہ میرے پاس غزہ کیلئے بہت اچھی تجاویز ہیں۔ اسے ایک آزاد علاقہ بنائیں اور امریکہ کو مداخلت کرنے دیں۔ قطر، جو طویل عرصے سے حماس کے سیاسی دفتر کی میزبانی کرتا ہے، وہاں امریکی صدر کا یہ بیان متنازع اوربحث کا موضوع بن گیا ہے۔
’’ غزہ برائے فروخت نہیں ہے ‘‘
ٹرمپ کے اس متنازع بیان کے فوراً بعد حماس کی جانب سے اسکا جواب آ گیا۔ حماس کے رکن باسم نعیم نے کہا کہ غزہ برائے فروخت نہیں ہے۔ غزہ فلسطینی سرزمین کا اٹوٹ حصہ ہے۔ یہ کھلی منڈی میں برائے فروخت کوئی جائیداد نہیں ہے۔ باسم نعیم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ غزہ میں امداد کی ترسیل اسرائیل کیساتھ مذاکرات کیلئے’کم از کم‘ شرط ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے گزشتہ ۲؍ مارچ سے غزہ پٹی کا مکمل محاصرہ کر رکھا اور یہاں خوراک اور امدادی سامان کی ترسیل مکمل طور پر بند کر رکھی ہے۔ غزہ کی پٹی میں لاکھوں افراد بھوک اور قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ حماس کے سیاسی بیورو کے رکن نے کہا ہے کہ مذاکرات کے سازگار اور تعمیری ماحول کیلئے کم از کم شرط یہ ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت کو سرحدی گزرگاہیں کھولنے اور انسانی، خوراک اور طبی امداد کی ترسیل کی اجازت دینے پر مجبور کیا جائے۔ یاد رہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے پہلی بار فروری ۲۰۲۵ء میں ( امریکی صدر بننے کے فوراً بعد )غزہ کے بارے میں اپنا خیال پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ اس علاقے کو دوبارہ ترقی دے گا اور فلسطینیوں کو دوسرے علاقوں میں جانے پر مجبور کرے گا۔ اس منصوبے کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔ فلسطینیوں، عرب ممالک اور اقوام متحدہ نے اسے نسلی صفائی قرار دیا تھا۔ تقریباً یہی بات انہوں نے جمعرات کو قطر میں دہرائی مگر دیگر الفاظ میں۔ حیران کن طور پر قطر نے اس بیان کی کوئی مخالفت نہیں کی۔