Inquilab Logo

جارج فلائیڈ کی شکایت کرنے پر آج بھی ندامت ہے

Updated: April 02, 2021, 2:32 PM IST | Agency | Washington

انیس؍ سالہ اسٹور کیشئر کرسٹوفر مارٹن نے عدالت کے سامنے گواہی دی،نہ اس نے جارج فلائیڈ سے ۲۰؍ ڈالر کا جعلی نوٹ قبول کیا ہوتا ، نہ اسٹور کے مالک سے شکایت کی ہوتی اور نہ پولیس آتی۔ کرسٹوفر نے واقعے کو ’ناقابل یقین اور احساس جرم ‘ دلانے والا قرار دیا۔ موقع پر موجود متعدد افراد نے گواہی دی

This is where George Floyd died last year.Picture:Agency
یہی وہ مقام ہے جہاں جارج فلائیڈ کی گزشتہ سال موت ہوئی تھی ۔تصویر: ایجنسی

  گزشتہ سال امریکہ کی منی پولس ریاست میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونےوالے سیاہ فام جارج فلائیڈ کے معاملے کی عدالت میں سماعت جاری ہے۔ اس دوران  اس نوجوان نے بھی گواہی دی جس کی شکایت پر پولیس نے جارج فلائیڈ کو پکڑا تھا۔ ۱۹؍ سالہ کرسٹوفر مارٹن اس اسٹور کا   سیلس مین ہے جہاں سے جارج فلائیڈ نے ۲۰؍ ڈالر کا جعلی نوٹ   دے کر سگریٹ کا پاکٹ خریدا تھا۔ کرسٹوفر نے عدالت کو بتایا کہ جارج فلائیڈ نے اسے  ۲۰؍ ڈالر کا جعلی نوٹ دیا تھا جسے اس نے قبول کر لیا تھا، لیکن اس وقت  تک اسے نوٹ کے جعلی ہونے کا علم نہیں تھا۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ نوٹ نقلی ہے تو وہ گھبرا گیا کیونکہ گاہک سے جعلی نوٹ قبول کرنے پر  یہ ۲۰؍ ڈالر اس کی تنخواہ سے کاٹ لئے جاتے۔ لہٰذا اس نے   اسٹور کےمالک کو اس کی اطلاع دی۔    مالک نے اسے فوراً باہر جا کر جارج کا  پیچھا کرنے اور اسے واپس اسٹور  میں لے کر آنے کیلئے کہا۔کرسٹوفر  نے بتایا کہ جب وہ باہر آیا تو  جارج فلائیڈ ۳؍ دیگر سیاہ فام افراد کے ساتھ کار میں بیٹھ چکا تھا اور اس نے واپس اسٹور چلنے  سے منع کر دیا۔ادھر کرسٹوفر اور جارج کے درمیان حجت جاری تھی کہ اسٹور کے مالک نے ایک دیگر ملازم کو پولیس کو فون کرنے کیلئے کہہ دیا۔  پولیس کے آنے کے بعد وہ سب کچھ ہوا جو دنیا جانتی ہے۔  کرسٹوفر کاکہنا ہے کہ جب ڈیرک شوون نامی افسر نےجارج کی گردن پر پیر رکھا تو اسے بڑی ندامت محسوس ہوئی کہ یہ سب کچھ اس کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ کرسٹوفر کے مطابق اگر اس نے وہ جعلی نوٹ جارج سے نہیں لیا ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی۔  کرسٹوفر نے عدالت کو بتایا کہ اس کیلئے وہ ناقابل یقین صورتحال تھی۔ آج بھی  وہ اس واقعے کو یاد کرکے احساس جرم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ 
’’ مجھے جارج کی نبض دیکھنے نہیں دی گئی‘‘
 اس سے قبل، فائربریگیڈ کی ایک رکن جینیووہینسن نے گواہی دیتے ہوئےکہا کہ انہیں موقعے پر فلائیڈ کی مدد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔جینیویو ہینسن نے بتایا کہ مذکورہ ا سٹور کے باہر پولیس اہلکار ڈیرک شو وین کو فلائیڈ کی گردن پر گھٹنے کے بل جھکے ہوئے دیکھا تھا، مگر ان کی مدد نہیں کر سکی تھیں۔گواہوں موقع پرشوٹ کئےگئے ویڈیو کے مطابق، جینیویو نے اس وقت پولیس کو بتایا تھا کہ فائر فائیٹر ہیںاور بار بار درخواست کی تھی کہ انہیں فلائیڈ کی نبض دیکھنے کی اجازت دی جائے۔استغاثہ  نے عدالت کو بتایا کہ  ڈیرک شووین ۹؍ منٹ اور۳۱؍ سیکنڈ تک فلوئیڈ کی گردن پر گھٹنے کے بل جھکا رہا۔
 ڈیرک شوون کے وکیلوں کا اصرار
  یاد رہے کہ پولیس اہلکار ڈیرک شو ون  جس پر جارج فلائیڈ کے قتل کا الزام ہے اس کے  وکیلوں نے عدالت کے سامنے اصرار کیا کہ پولیس اہلکار صرف اپنی پیشہ ورانہ تربیت کے مطابق عمل کر رہا تھا ، اور یہ کہ فلائیڈ کی موت دیگر وجوہات سے ہوئی ہیں جن میں دل کی بیماری اور منشیات کا استعمال شامل تھا۔یاد رہے کہ گزشتہ سال ۲۵؍ مئی کو سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں اس وقت موت ہو گئی تھی جب پولیس اہلکار ڈیرک شوون نے اسے گرفتار کرنے کیلئے اس کی گردن پر پیر رکھا تھا۔  جارج کی موت کے بعد پورے امریکہ میں ’ بلیک لائیوز میٹر‘ ( سیاہ فام زندگیاں  اہمیت رکھتی ہیں )  کے  نام سے احتجاج ہوئے تھے۔   حال ہی میں منی پولس کے محکمۂ پولیس نے جارج فلائیڈ کے اہل خانہ سے گفت وشنید کےبعد انہیں  ۲۷؍ ملین ڈالر کی رقم بطور ہرجانہ ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ 

washington Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK