جرمنی کی راجدھانی برلن میں حکومت کی اسرائیلی جارحیت کی حمایت کےخلاف ایک لاکھ سے زائد افراد نے مظاہرہ کیا، مظاہرین نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات فوری روکنے اور تل ابیب کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کا مطالبہ کیا۔
EPAPER
Updated: September 28, 2025, 10:17 PM IST | Berlin
جرمنی کی راجدھانی برلن میں حکومت کی اسرائیلی جارحیت کی حمایت کےخلاف ایک لاکھ سے زائد افراد نے مظاہرہ کیا، مظاہرین نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات فوری روکنے اور تل ابیب کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کا مطالبہ کیا۔
اطلاعات کے مطابق، تقریباً۵۰؍ گروپوں کے ایک وسیع اتحان بشمول فلسطین نواز تنظیموں، میڈیکو انٹرنیشنل اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بڑے مظاہرے کی اپیل کی جس کے بعد سنیچر کو مظاہرین برلن کے ٹاؤن ہال سے گروسٹرن میں ہونے والے اجتماع تک مارچ کرتے ہوئے پہنچے۔’’تمام نظریں غزہ پر ہیں- نسل کشی بند کرو‘‘ کے عنوان سے منعقدہ اس بڑے اجتماع کے منتظمین نے فلسطینی خطے میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ میں ’’جرمنی کی معاونت کا خاتمہ‘‘ کا مطالبہ کیا۔انہوں نے ’’اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی تعاون ختم کرنے‘‘ کا بھی مطالبہ کیا۔ اس میں ہتھیاروں، گولہ بارود اور دیگر فوجی سازوسامان کی درآمد، برآمد اور نقل و حرکت شامل ہے۔منتظمین نے ایک بیان میں کہا کہ ’’اسرائیلی حکومت کے اقدامات کو طویل عرصے سے ماہرین اور بین الاقوامی تنظیموں نے نسل کشی قرار دیا ہے، اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس بھی اسے اسی حیثیت سے تحقیقات کر رہی ہے۔ جبکہ ہر شخص دیکھ رہا ہے کہ کس طرح اسرائیلی فوج غزہ میں بڑے پیمانے پر مظالم ڈھا رہی ہے، جرمن حکومت منظم تشدد سے انکار کرتی ہے۔
مظاہرین نے ’’آزاد فلسطین‘‘ اور ’’زندہ باد فلسطین‘‘ کے نعرے لگائے اور ’’غزہ میں نسل کشی بند کرو‘‘، ’’کبھی کسی کے ساتھ نہیں‘‘ اور ’’فلسطین کی آزادی‘‘کے بینرز اٹھائے۔ کئی مظاہرین نے فلسطینی پرچم بھی لہرائے۔انہوں نے اسرائیل کو جرمن ہتھیاروں کی برآمدات فوری روکنے، غزہ میں انسانی امداد کی رسائی، اور اسرائیل کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کا مطالبہ کیا۔ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے، لیفٹ پارٹی کی چیئرپرسن انیس شویرڈٹنر نے غزہ میں نسل کشی اور جرمن حکومت کی معاونت کا ذکر کیا۔انہوں نے کہا کہ ’’چانسلر (فریڈرک میرٹز) اور وزراء بات تو کرتے ہیں، لیکن عمل نہیں کرتے۔ وہ `ریاستی مصلحت کی بات کرتے ہیں، جبکہ اسپتال ملبے کا ڈھیر بن رہے ہیں۔ وہ نسل کشی کے بارے میں خاموش ہیں اور اس میں شریک ہیں۔‘‘
غزہ نسل کشی منگل کو جاری ہونے والے ایک نئے سروے سے پتہ چلا ہے کہ۶۲؍ فیصد جرمن ووٹرز کا خیال ہے کہ غزہ میں اسرائیلی اقدامات نسل کشی ہیں، جس نے دائیں بازو کی حکومت پر اسرائیل کے ساتھ اپنے موقف پر نظرثانی کا دباؤ بڑھا دیا ہے۔اگرچہ چانسلر میرٹز اور وزیر خارجہ جوہان واڈیفول نے حال ہی میں اسرائیل کے قتل عام اور غزہ میں انسانی امداد کے محاصرے پر اپنی تنقید کو تیز کیا ہے، لیکن انہوں نے اب تک ’’نسل کشی‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کیا ہے، اور اس کے بجائے اسرائیلی فوج کی طرف سے ’’غیر متناسب‘‘ طاقت کے استعمال کا حوالہ دیا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے غزہ میں ۶۶؍ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔اس نے محصور غزہ کے بیشتر حصے کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے اور عملی طور پر تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔