گلوبل صمود فلوٹیلا کو محصور غزہ پہنچنے میں ۶؍دن باقی ہیں، اس بیڑے کے جہاز اب غزہ سے تقریباً ۶۰۰؍کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، وہ اسرائیلی محاصرہ توڑنے سے قبل بین الاقوامی سمندری حد میں مجتمع ہوں گے۔
EPAPER
Updated: September 23, 2025, 10:28 PM IST | Athens
گلوبل صمود فلوٹیلا کو محصور غزہ پہنچنے میں ۶؍دن باقی ہیں، اس بیڑے کے جہاز اب غزہ سے تقریباً ۶۰۰؍کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، وہ اسرائیلی محاصرہ توڑنے سے قبل بین الاقوامی سمندری حد میں مجتمع ہوں گے۔
گلوبل صمود فلوٹیلا نے پیر کے روز کہا کہ اس کے جہاز غزہ سےتقریباً ۶۰۰؍بحری میل کے فاصلے پر ہیں اور وہ اسرائیل کے غزہ پر عائد محاصرے کو توڑنے کی کوشش سے قبل بین الاقوامی سمندری حدود میں اکٹھے ہو رہے ہیں .ایک بیان میں، اتحاد نے کہا کہ اسے توقع ہے کہ اس کا یونانی بیڑا انسانی مشن کے حصے کے طور پر ’’آئندہ دنوں میں‘‘ شامل ہو جائے گا .اتحاد کی جاری کردہ ایک ویڈیو میں۲۲؍ ستمبر کی تاریخ کے ساتھ بحری جہاز `سیریس دکھایا گیا، جس میں بتایا گیا کہ وہ ’’ہائی رسک زون سے پانچ دن‘‘ اور ’’غزہ سے سات دن‘‘کے فاصلے پر ہے ۔
منتظمین کے مطابق، اس مشن کے لیے۴۰؍ سے زائد بحری جہاز بین الاقوامی پانیوں میں اکٹھے ہو رہے ہیں .حال ہی میں، اسرائیل کے محاصرے کو توڑنے کے انسانی مشن کے حصے کے طور پر درجنوں بحری جہاز شمالی افریقی اور یورپی بندرگاہوں سے غزہ کی جانب رواں دواں ہیں .یہ مشن اپنی نوعیت کی سب سے بڑی کوشش ہے جس کا ہدف غزہ تک پہنچنا ہے، جہاں۲۴؍ لاکھ فلسطینی ۱۸؍ ماہ سے جاری اسرائیلی محاصرے کے تحت زندگی گزار رہے ہیں .اسرائیل نے ماضی میں بھی غزہ کی جانب جانے والے بحری جہازوں کو روکا ہے، ان بحری جہازوں پر قبضہ کیا ہے اور ان پر سوار افراد کو ملک بدر کر دیا ہے . واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے محققین حال ہی میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، جہاں اکتوبر۲۰۲۳ء کے بعد سے۶۵؍ ہزار ۳۰۰؍ سے زائد افراد شہید کئے جاچکے ہیں ۔
فرانس، آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور پرتگال نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا، جس کے بعد فلوٹیلا پر موجود کارکنان نے مختلف انداز میں اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔برطانوی فلسطینی صحافی کیرین انڈریو نے کہا کہ ’’ فلسطین کو تسلیم کرنے کی خبر خوش آئند تو ہے، لیکن اس کے ساتھ ڈھیر ساری شرطیں بھی لگائی گئی ہیں، اس کے علاوہ دو سال سے اسرائیل کو نسل کشی کی اجازت دی گئی ہے، اس کے خلاف کچھ نہیں کیا گیا، اقوام عالم کو اسرائیل پر پابندی عائد کرنی چاہئے، اس کے سفیر کو اپنے ملک سے نکال دینا چاہئے، اسرائیل کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو منسوخ کردینا چاہئے۔‘‘
برطانوی پارلیمنٹ کے رکن لاوی جو فنلیٹر نے کہا کہ یہ دیر سے لیا گیا فیصلہ ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ برطانیہ کے اسرائیل کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، برطانیہ مسلسل اسرائیل کو اسلحوں کی ترسیل جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے معنی نسل کشی کو قبول کرنا ہے۔
پرتگال کی رکن پارلیمنٹ ماریانہ مورٹاگوا نے کہا کہ پرتگال نے کافی تاخیر سے یہ فیصلہ لیا، حالانکہ پر تگال کو نسل کشی روکنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئے تھے، حکومت کو فلسطین کو تسلیم کرنے کے ساتھ ہی اسرائیل پر پابندی بھی عائد کرنی چاہئے۔