Inquilab Logo

گجرات: ۸؍ سالہ طالب علم کے خلاف ساتھی طلبہ کا امتیازی سلوک

Updated: March 11, 2024, 6:24 PM IST | Surat

گجرات کے بڑودہ کے ٹری ہاؤس اسکول میں معمولی جھگڑے کے بعد ۸؍ سالہ طالب علم کے خلاف ساتھی طلبہ نے امتیازی ردعمل کا اظہار کیا اور اسلاموفوبیا کمینٹس بھی کئے۔ اس واقعے نے متاثرہ طالب علم کو صدمے میں مبتلا کیا ہے۔ اسکول انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد بھی کوئی فائدہ نہ ہونے کے بعد والدین نے اعلیٰ انتظامیہ سے رجوع کیا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

گجرات کے بڑودہ کے ایک اسکول میں معمولی جھگڑے کے بعد ۸؍ سالہ طالب علم کو اس کے ساتھی طالب علم نے اس کی مسلم شناخت کیلئے اس سے بدسلوکی کی اور اسے دھمکی دی۔ ۱۷؍ فروری کو پیش آنے والے اس حادثے میں تیسرے گریڈ کے طلبہ کے اپنے ساتھی طالب علم کو امتیازی ردعمل دینے اور اسلاموفوبیا کے کمینٹس کرنے نے والدین کو گہرے صدمے میں مبتلا کیا ہے۔ یہ واقعہ، جس نے خلاباز بننے کی خواہش رکھنے والے لڑکے کی زندگی میں مشکلیں پیدا کی ہیں، ودودارا کےٹری ہاؤس ہائی اسکول میں طالب علم کی جانب سے پنسل کی درخواست کرنے کے بعد پیش آیا تھا۔
متاثر، جس کا نام فیضان محمد ہے اور جو شہزاد انصاری کے بیٹے ہیں، نے اپنے ساتھی طالب علم سے پنسل مانگی۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ اپنی پنسل گھرپر بھول گیا ہے۔ جب کلاس میں کسی نے بھی اسے پنسل نہیں دی تو اس نے اپنے بیگ میں دوبارہ پنسل تلاش کی اور اسے پنسل مل گئی۔ جب اس کے ہم جماعت طلبہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے اس کے ساتھ بدتمیزی شروع کی اور اس سے کہا ’’مسلمان سب ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘‘
فیضان نے ان کے اس جملے پر اعتراض کیا اور انہیں متنبہ کیا کہ وہ ایسی باتیں نہ کریں۔۔ فیضان کے یہ کہنے کے بعد بھی اس کے ساتھی طلبہ نے بدتمیزی جاری رکھی۔ وہ کہتے رہے’’مسلمان ایسے ہی گندے ہوتے ہیں۔ ہم نے تمہیں اس ملک میں رہنے دیا ورنہ تم کٹورا لے کر کہیں بھیک مانگ رہے ہوتے۔‘‘ ان کے اس کمینٹس سے تنگ آکر فیضان کلاس سے باہر نکل گیا اور اس نے اسکول کے کارڈینیٹر سے معاملے کی شکایت کی۔ تاہم، کارڈینیٹر جو مبینہ طور پر دوسرے بیمار طالب علم کی دیکھ بھال میں مصروف تھے، نے اسی وقت معاملے کو اہمیت نہیں دی۔ مزید برآں کہ اس کے ساتھی طالب علم نے اسے واقعے کی شکایت کرنے کے خلاف بھی دھمکی دی۔ مبینہ طورپر ایک طالب علم داویش (نامی تبدیل کیا گیا ہے) نے کہا کہ ’’اگر تم نے گھر جا کر اپنے ممی پاپا کو یہ سب بتایا تو اچھا نہیں ہوگا۔‘‘
ان میں سے ایک طالب علم شیوا (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے یہاں تک کہ فیضان کو قتل کی دھمکی دی اور کہا کہ ’’گلا کانٹ کرہاتھ میں دے دوں گا۔‘‘ فیضان، جو اس واقعے سے کافی خوفزدہ تھے، نے اپنے والدین کو کہا کہ ’’ابو کیا وہ میرا گلا کانٹ دیں گے؟‘‘
ان کے چچا صغیر احمد انصافی نے دی اوبزرور پوسٹ کو بتایا کہ اس ناخوشگوار واقعے نے فیضان کو صدمے میں مبتلا کردیا ہے اور اب وہ اسے ماہر نفسیات کو دکھانے والے ہیں۔ جب اس واقعے کو اسکول انتظامیہ کے سامنے رکھا گیا تو ساتھی طلبہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے ایسا کیا تھا۔
تصدیق کے بعد اسکول انتظامیہ نے ان طلبہ کے والدین کو واقعے کی اطلاع دی اور انہیں اسکول بلایا۔ وہ والدین بھی یہ سن کر حیران ہو گئے کہ ان کے بچوں نے ایسے کمینٹس کریں ہیں۔ بعد ازیں اسکول نے کارڈینیٹر نشی گوری کو فیضان کو حفاظت کرنے کی ہدایت دی۔ اس واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے صغیر احمد نے ۱۹ ؍فروری کو اسکول میں ہونے والی دوسری میٹنگ میں اسکول کی جانب سے کی جانے والی یقین دہانیوں کے بارے میں بھی بتایا۔ اسکول انتظامیہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ملزمین طلبہ کی، جن میں شیوا، مانو، ہریش، داویش، ہرش، کی ماہرین سے کاؤنسلنگ کروائیں گے جو اب تک عمل میں نہیں آئی ہے۔
صغیر احمد نے مزید کہا کہ اسکول انتظامیہ نے ملزمین طلبہ کو اسکول کے الگ سیکشن میں منتقل کیا ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے اتنے کم عمر طلبہ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف قابل نفرت کلمات کی ادائیگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے سوال قائم کیا کہ ’’۸؍ سے ۹؍ سال کے درمیان کی عمر کے ان طلبہ میں کس نے نفرت پیدا کی؟اس بات نے مجھے تکلیف دی کہ ہماری اگلی نسل کہاں جارہی ہے؟‘‘

اسکول انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد بھی طالب علم کے ساتھ جسمانی زیادتی 
اسکول کی انتظامیہ کے ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کروانے کے بعد بھی فیضان کے ساتھ منگل کو ایک طالبعلم نے جسمانی زیادتی کی تھی۔ اوبزور پوسٹ سے بات چیت کرنے کے دوران صغیر احمد نے بتایا کہ ریسیس کے دوران کنٹین میں فیضان کو بوٹل سے سر پر مارا گیا تھا۔ اس کے بعد ابتدائی طورپر اسکول انتظامیہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس طالب علم کو ۷؍ دن کیلئے معطل کریں گے جبکہ فیضان نے دوسرے دن اسکول میں اس طالب علم کو دیکھا تھا۔
ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق فی الحال فیضان گھر پر ہے جبکہ ان کے خاندان نے اس معاملے میں اعلیٰ انتظامیہ سے رجوع کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور وہ تامل کے ساتھ مستقبل کا لاحہ عمل تیارکر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ دیگر طلبہ کے والدین نے بھی انہیں بتایا کہ ان کے بچوں نے بھی ماضی میں اسی طرح کے امتیازی کمینٹس کا سامنا کیا تھا۔ دی آبزرور پوسٹ کے نمائندے کا کال منقطع کرنے کے بعد اسکول انتظامیہ اور فیکلٹی نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK