نظم و نسق کو برقرار رکھنے میں ناکامی پر گجرات حکومت کی سخت سرزنش کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ شہریوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
EPAPER
Updated: June 25, 2025, 12:04 PM IST | Inquilab News Network | Ahmedabad
نظم و نسق کو برقرار رکھنے میں ناکامی پر گجرات حکومت کی سخت سرزنش کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ شہریوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
مسلم تاجر کو ہندواکثریتی علاقے میں کاروبارنہ کرنے دینے کے معاملے میں سماعت کرتے ہوئے گجرات ہائی کورٹ نے ریاست کی بی جے پی حکومت کو خوب لتاڑا۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ قانون اور نظم و نسق قائم رکھنا ریاستی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ کسی بھی شہری کو اس کے قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حکم عون علی ڈھولکاوالا کی جانب سے دائر کردہ ایک عرضی پر دیا گیا جنہوں نے شکایت کی تھی کہ انہیں بڑودہ کے ایک ہندو اکثریتی علاقے میں قانونی طور پر خریدی گئی اپنی دکان میں کاروبار شروع کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کےمطابق جسٹس ایچ ڈی ستھار کی بنچ نے ڈھولکاوالا کو راحت دیتے ہوئے حکام کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے کو فوری طور پر حل کریں اور درخواست گزار کو مکمل تحفظ فراہم کریں تاکہ وہ دکان کی مرمت کرا کے اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔ ڈھولکا والا نے بتایا کہ انہوں نے۲۰۱۶ء میں بڑودہ کےچمپانیر دروازہ علاقے میں دو ہندو بھائیوں سے ایک دکان خریدی تھی تاہم، یہ علاقہ ’گجرات غیر مستحکم علاقہ ایکٹ۱۹۹۱ء‘ کے دائرے میں آتا ہے، جہاں جائیداد کی خرید و فروخت کیلئے ضلع کلکٹر کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے ۲۰۲۰ء میں ہائی کورٹ کی مدد سے دکان خریداری کے دستاویزرجسٹر کروائےلیکن دستاویزات کی قانونی تکمیل کے باوجود، علاقے کے کچھ افراد نےمسلمان کو دکان فروخت کرنے پر اعتراض کیا اور اس سودے کو منسوخ کرنے کی مانگ کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے علاقے کا آبادیاتی توازن بگڑ سکتا ہے اور فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
ہائی کورٹ نے جرمانہ لگایا تھا
فروری۲۰۲۳ء میں گجرات ہائی کورٹ نے ان اعتراضات کو خارج کرتے ہوئے مخالفت کرنے والے ۲؍ افراد پر ۲۵-۲۵؍ ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ وہ جان بوجھ کر ڈھولکاوالا کو ان کی قانونی جائیداد کے استعمال سے روک رہے ہیں، جو مکمل طور پر قانونی طریقے سے خریدی گئی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی مسترد کر دی گئی تھی۔ اس کے باوجود مقامی افراد نے ڈھولکا والا کو دکان استعمال کرنے نہیں دی۔ انہوں نے مبینہ طور پر دکان کے باہر ملبہ ڈال دیا تاکہ وہ دکان کھولی ہی نہ جا سکے۔
اس تعلق عدالت کا نیا حکم
فرقہ وارانہ بنیاد پرہراسانی سے مسلسل پریشان ڈھولکاوالا نے ایک بار پھر ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اس سلسلے میں پولیس تحفظ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے متعدد بار پولیس کو اس معاملے سے آگاہ کیا اور اس سے تحفظ مانگا لیکن انہیں کوئی مدد نہیں ملی۔ عرضی گزار کی باتیں سننے کے بعد ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ان کے قانونی حقوق کے استعمال میں مدد فراہم کرے اور ایسی تمام رکاوٹوں کو دور کرے۔ عدالت عالیہ نے انتظامیہ کو ہدایت دی کہ وہ اس سلسلے میں فوری کارروائی کر کے ڈھولکاوالا کو ان کی دکان استعمال کرنے کی مکمل سہولت فراہم کرے۔ عدالت نے کہا کہ ’’کسی بھی شخص کو قانونی طریقے سے خریدی گئی ملکیت کے استعمال سے روکنا آئین کے تحت غلط ہے اور یہ قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ‘‘ عدالت نے کہا کہ’’ یہ ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کی سیکوریٹی کو یقینی بنائے اور اس کا حق دلائے۔ ‘‘ عدالت کے مذکورہ فیصلے سے عرضی گزار کو یقیناً راحت ملی ہوگی لیکن دکان کھلنے تک ان کا مسئلہ برقرار رہے گا۔