انتھک محنت اور مستقل مزاجی نے کئی کمپنیوں کا مالک بنا دیا، ہندوستان کے علاوہ بیرون ملک بھی ان کا کاروبارپھیلا ہوا ہے۔
EPAPER
Updated: July 09, 2025, 5:34 PM IST | Mumbai
انتھک محنت اور مستقل مزاجی نے کئی کمپنیوں کا مالک بنا دیا، ہندوستان کے علاوہ بیرون ملک بھی ان کا کاروبارپھیلا ہوا ہے۔
ممبئی سینٹرل کے دودھ والا کمپلیکس میں مقیم ۶۵؍ سالہ معروف تاجر، سماجی اور ادبی شخصیت حاجی فیاض الدین نظام الدین انصاری تعارف کے محتاج نہیں ۔آپ کاتعلق اُترپردیش کے ضلع سیتاپور سے ہے۔ والد حاجی انصاری نظام الدین جن کا قلمی نام انجم انصاری تھا، کہنہ مشق شاعر تھے۔ان کی ادبی اورتعلیمی سرپرستی فیاض الدین انصاری کی شخصیت میں واضح طو رپر جھلکتی ہے۔
فیاض الدین انصاری آج کامیاب زندگی گزار رہے ہیں لیکن یہ کامیابی انہوں نے صبر آزما مدارج سے گزر کر حاصل کی ہے۔ ان کےوالدمل میں کام کرتے تھے اور والدہ اسکول میں معلمہ تھیں۔متواتر ہڑتالوں کے بعد جب والد ملازمت سےہاتھ دھو بیٹھے تو۱۰؍بچوں کی کفالت کی ذمہ داری تنہا والدہ پر آگئی ۔ اخراجات پورے کرنے میں آنےوالی مالی دشواریوں کی وجہ سے والدین کو اکثر قرض لیناپڑتاتھا۔ اس دور میں فیاض الدین انصاری انجمن اسلام ( سی ایس ایم ٹی) میں نویں جماعت میں زیر تعلیم تھے۔ پریشانی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے پڑھائی کےساتھ ساتھ معاشی محاذ پر والدین کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کی تاکہ بھائی بہنوں کی کفالت میں کسی حدتک تعاون کیا جا سکے۔ فیاض الدین بتاتے ہیں کہ اس وقت ہمارا سانکلی اسٹریٹ ،مدنپورہ کی بائولا بلڈنگ میں ایک کمرہ کا مکان تھا۔ اسی میں والدین کے ساتھ سب بھائی بہن رہتے تھے۔ حالانکہ مالی اعتبار سے یہ خانوادہ آزمائش کے دور سے گزر رہا تھالیکن معاشرہ میں اس خاندان کی شہرت، اہمیت اور انفرادیت اپنی جگہ قائم تھی۔ نظام الدین انصاری سے ان کے عزیز واقارب کے علاوہ محلے کے لوگ مختلف مسائل پر صلاح و مشورہ کرنے آتے تھے۔ ان کی بلڈنگ کے نیچے ایک چوپال تھا،جہاں شام کےوقت نظام الدین کے علاوہ محلہ کی دیگر اہم شخصیات اکٹھا ہوتیں، محفلیں سجتیں اور سماجی، تعلیمی نیز ادبی موضوعات پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا۔ ان ہی محفلوں سے فیاض الدین انصاری نےبھی فیض حاصل کیا۔
چھوٹی سی عمرمیں کام کرنے اور ذمہ داریوں سے آنے والی خوداعتمادی نے فیاض انصاری کو مزید محنت کی ترغیب دی۔ اس دور میں سانکلی اسٹریٹ میںان کے ایک دوست عبدالعزیزتھے ،جن کے پاس موٹر گاڑی تھی ۔ ان سے ڈرائیونگ سکھانے کی درخواست کی جو انہوں نے مان لی۔ اس وقت بھی مدنپورہ میں بیلٹ ، پرس اور پاکٹ بنانے والوںکے کارخانے اور دکانیں تھیں۔کولکاتاکے اشرف نامی کارخانے دار سے فیاض الدین کےمراسم تھے۔ انہوںنے اشرف سے کاروبار شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ اشرف نےانہیں ضروری صلاح دینے کےساتھ ٹفین بیگ بنا کر دیا اور کہاکہ اسے بیرونِ ممبئی فروخت کروگے تو بہتر ہے۔ پیسہ مال فروخت ہونے کے بعد دینا۔ مال لے کر فیاض الدین ، سورت گئے ۔ جہاں ان کی پھوپھی رہتی تھیں۔ سورت کے بھاگل، چکلہ اور ایم جی مارکیٹ کادورہ کرکے ۲؍دنوںمیں مال فروخت کیا اورممبئی لوٹ آئے ۔ حساب کتاب کے بعد ۲۷؍روپے ۵۰؍پیسے منافع ہوا۔جو اس دور میں بڑی رقم تھی۔ اس پوری مہم میں، ان کے چاچاتاج الدین انصاری نے ان کی رہنمائی کی ۔ حساب کتاب کےدوران فیا ض الدین نے خود پر جو ۵۰؍ پیسہ خرچ کیاتھا،اس پر انہیں چاچاتاج الدین کی ڈانٹ بھی سننی پڑی۔
بیگ کے کاروبار کےدوران، روسی سفار ت خانہ میں ڈرائیور کی آسامی نکلی۔ اطلاع ملتے ہی فیاض الدین نے درخواست دے دی۔۶۰۰؍روپے ماہانہ پر ان کی تقرری ہوگئی ۔ ۲؍سال ملازمت کی پھر بہتر کی تلاش میں ۹۰۰؍ روپے ماہانہ پر عمان سفارت خانہ سے وابستہ ہوگئے۔ ان کی محنت ، ایمانداری اور ذمہ داری کاجذبہ دیکھ کرچند دنوں میں انہیں ڈرائیور سے کلرک کے عہدہ پر ترقی دیدی گئی اور پھر یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ درجہ بدرجہ ان کی ترقی ہوتی گئی ۔ عمان کے سفارتخانہ میں انہوںنے ۱۵؍سال ملازمت کی اور بطور اسسٹنٹ پبلک ریلیشن آفیسر مستعفی ہوئے۔
زندگی کا بیشتر حصہ ملازمت میں گزارنےکے بعد ۱۹۹۵ء میں انہوں نے اپنے بھائیوں کےساتھ کاروبار شروع کرنے کافیصلہ کیا۔ ننجا ٹریڈرس نامی ویڈیوگیمز کے کاروبار سے زندگی کانیاباب شروع کیا اور پھر پلٹ کر نہیں دیکھا ۔ یکے بعد دیگرےکئی کمپنیوں کی بنیاد ڈالی۔ ۲۰۰۲ءمیں گیمرس انٹرنیشنل (انڈیا) نامی امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی شروع کی، جس کےمعرفت انہوںنے گوشت کے ایکسپورٹ کاکاروبار شروع کیا، علاوہ ازیں آندھرا پردیش میں السمیع ایگرو پروڈکٹس پرائیویٹ لمیٹڈمیں بطور شراکت دار منتخب کئے گئے۔ اسکین ٹو پلان نامی ،ممبئی اور بھیونڈی میں ۲؍ڈینٹل اسکیننگ سینٹر ہیں ۔ دوبئی میںکمپیوٹر اینڈ الیکٹرانک اور کمپیوٹر کے کاروبار سے وابستگی ہے،غرضیکہ معمولی کام سے اپنی عملی زندگی شروع کرنےوالے مستحکم اورمستقل مزاج فیاض الدین انصاری آج اپنی تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے سیکڑوں خاندانوں کے ذریعہ معاش کا ذریعہ بنے ہوئےہیں۔
فیا ض الدین کی کامیابی نسل نوکیلئے ایک مثال ہے۔ ان کا ماننا ہےکہ انسان کو اپنا ایک ہدف طے کرناچاہئے، اسے حاصل کرنے کیلئے ایمانداری ، ذمہ داری اور خود اعتمادی کا دامن مضبوطی سے پکڑنا چاہئے ۔ مجھے ان نوجوانوں پر افسوس ہوتاہےجو کم وقت میں زیادہ کی توقع کرکے اپنی قوت کھورہے ہیں۔ کم وقت میں مالدار بننے کی خواہش دھوکہ ہےلہٰذا نوجوانوں سے اپیل ہےکہ وہ اپنے کرئیر سے کھلواڑ نہ کریں ۔ معاشی کامیابی کےساتھ ہی فیاض الدین نے ادبی ، سماجی ، ملّی اور تعلیمی سرگرمیوںمیں حصہ لینے کی خاندانی روایت کو بھی برقرار رکھا۔ ادب وثقافت سے گہری محبت ہے۔اس کی ایک مثال ان کے والد محترم نے اپنے شعری مجموعہ غزلستان ِ انجم میں رقم کی ہے، ’’فیاض میںسخن شناسی کا جذبہ کوٹ کوٹ کربھرا ہے۔ میرے متعدد اشعار اسے زبانی یاد ہیں، میں جن کاغذ وں پر وقتاً فوقتاً اپنے اشعار تحریرکرتاتھا، ان کاغذات کے ٹکڑوںکو اس نے متاع جاں کی طرح سنبھال کر رکھاہے ۔میں تو فیاض کا اپناہوں لیکن غیر بھی جب فیاض سے ملتےہیں تو ان کے اخلاص ومحبت کے گرویدہ ہوجاتےہیں۔ فیا ض اورمیرے دیگر فرزندوںمیں معمولی امتیاز ہے ، جسے میں فراموش نہیں کرسکتا، دوسرے بیٹے آواز دینےپرچل کر آتےہیںجبکہ فیاض دوڑ کرآتاہے۔ان کے والدنے ان کے اوصاف سےمتعلق ایک شعر بھی کہاہے جو ان کی شخصیت کا گہوارہ کرتاہے۔’’ پچاس سال بھائیوں میں شفقتیں بکھیر دیں، برادروں میں آج بھی وہ معتبر امام ہے۔‘‘