غزہ میں تقریباً ۴؍ لاکھ افراد لاپتہ ہیںجن میں نصف سے زائد بچے ہیں، اور امدادی مراکز شہریوں کا خیال رکھنے سے زیادہ انہیں کنٹرول کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں، یہ بات ہارورڈ ڈیٹاورس کی رپورٹ سے سامنے آئی۔
EPAPER
Updated: June 26, 2025, 8:02 PM IST | Gaza
غزہ میں تقریباً ۴؍ لاکھ افراد لاپتہ ہیںجن میں نصف سے زائد بچے ہیں، اور امدادی مراکز شہریوں کا خیال رکھنے سے زیادہ انہیں کنٹرول کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں، یہ بات ہارورڈ ڈیٹاورس کی رپورٹ سے سامنے آئی۔
ہارورڈ ڈیٹا ورس کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اکتوبر۲۰۲۳ء سے غزہ کی۲۲؍ لاکھ کی آبادی میں سے تقریباً ۳؍ لاکھ۷۷؍ ہزار افراد لاپتہ ہیں، جن میں سےتقریباًآدھے بچےہیں۔ یہ اعداد و شمار سرکاری اعداد (۵۶؍ ہزار اموات) سے کہیں زیادہ ہلاکتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ رپورٹ میں اسرائیلی امریکی حمایت یافتہ ’’غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن‘‘ کے امدادی مراکز کو امداد کے بجائے کنٹرول کا ذریعہ قرار دیا گیاہے۔ اسرائیلی پروفیسر یعقوب گارب کی تحقیق میں ڈیٹا اور سیٹلائٹ نقشوں کے ذریعے ثابت کیا گیا ہے کہ غزہ شہر میں صرف۱۰؍ لاکھ، المواسی محفوظ زون میں۵؍ لاکھ، اور وسطی غزہ میں۳؍ لاکھ۵۰؍ ہزار افراد باقی ہیں (کل ۱۸؍لاکھ ۵۰؍ ہزار)۔۲۲؍ لاکھ ۲۷؍ ہزارکی اصل آبادی کے مقابلے میں۳؍ لاکھ ۷۷؍ ہزار افراد کا لاپتہ ہونا، اس بات کی علامت ہے کہ ہلاکتیں سرکاری اعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔
جی ایچ ایف مراکز کی حقیقت:
یہ مراکز دُور دراز اور فوجی کنٹرول والے علاقوں میں قائم کیے گئے ہیں، جہاں تک پہنچنے کیلئے غزہ شہر کے باشندوں کو جنگی زون اور ملبے سے بھرے علاقوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر مرکز کی یکسانیت ’’فوجی حکمتِ عملی‘‘ کو ظاہر کرتی ہے، جن میں گھیراؤ والی دیواریں، تنگ داخلی راستے، اور نگرانیکیلئے کیمرے،ان میں پانی، بیت الخلاء، سائے یا طبی سہولیات کابالکل بھی انتظام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس میں اہل غزہ کیلئے کئی خطرات پیدا کئے گئے ہیں۔ امداد لینے والوں کو۱۵؍ کلوگرام کا ڈبہ اُٹھا کرکئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے، جبکہ راستے میں فائرنگ کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق۱۷؍ مئی سے اب تک صرف ان مبینہ مراکز کے قریب ۴۵۰؍ افراد ہلاک اور۳۵۰۰ زخمی دیگر ہو چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ لائحہ عمل حفاظتی واقعات کو پیدا کرکے فائرنگ کو جواز فراہم کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک حکمت عملی کے تحت فی فلسطینی اتنی ہی امداد دی جاتی ہے جو ۵؍ افراد پر مبنی خاندان کیلئے محض ۳؍ سے ۴؍ دنوں کیلئے کافی ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہل غزہ کو بار بار امداد کیلئے اپنی جان پر کھیل کر امداد حاصل کرنے کیلئے جانا پڑتا ہے، اوراس نے فلسطینیوں کو ان امدادی مراکز کا محتاج بنا کر رکھ دیا ہے۔اس کے ساتھ ہی افرا تفری پیدا کرکے فوجیوں کے ذریعے کی جانے والی ناحق فائرنگ کو بھی جائز ٹھہرایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ان امدادی مراکز پر وہی فوجی تعینات کئے گئے ہیں، جو اس سے قبل اس طرح کے قتل عام میں ملوث پائے گئے تھے۔
انسانی بحران پر اثرات
اسرائیل کی جانب سے۲؍ مارچ سے سرحدی کراسنگ بند کرنے کے بعد لاکھ فلسطینیوں کو خوراک اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔ جی ایچ ایف کے تحت نجی فوجی کمپنیوں کو شامل کرکے اقوامِ متحدہ جیسے غیر جانبدار اداروں کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ گارب کے مطابق، اسرائیل کا یہ اقدام بین الاقوامی قانون کا بد نیتی پر مبنی عمل پیرا ہونا ہے۔ اگر اسرائیل خود امداد فراہم نہیں کر سکتا، تو اسے دوسرے اداروں کو ایسا کرنے دینا چاہیے۔ ورنہ یہ’’ انسانی امداد کو جنگی ہتھیار میں بدلنے‘‘ کے مترادف ہے۔