Inquilab Logo

حجاب تنازع پرسپریم کورٹ میں گرما گرم بحث

Updated: September 09, 2022, 9:57 AM IST | new Delhi

سماعت کے دوران کئی مواقع پر قرآن و حدیت کے حوالے بھی پیش کئے گئے ، بنچ نے وکلاء سے کئی سوال پوچھے ، ایڈوکیٹ دیو دت کامت نے پابندی کو ’غیر آئینی ‘ قرار دیا

In Karnataka, a needless controversy was created over the hijab, due to which female students are suffering. (File Photo)
کرناٹک میں حجاب پربلاوجہ تنازع کھڑا کیا گیا جس کی وجہ سے طالبات کو پریشانی ہو رہی ہے۔(فائل فوٹو)

تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے   حجاب پہننے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے ذریعہ لگائی گئی پابندی کے خلاف داخل عرضی پر سپریم کورٹ میں جمعرات کو لگاتار دوسرے دن بھی  زوردار بحث دیکھنے کو ملی۔ جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ نے  دونوں فریقوں کی دلیلیں سنیں اور کئی طرح کے سوالات  قائم کئے۔ سپریم کورٹ میں بحث اس بات کو لے کر ہو رہی ہے کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ ہے یا نہیں؟ یعنی مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت دی جائے یا نہیں؟حجاب پر پابندی کے خلاف داخل عرضی پر اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے وکلاء ہائی کورٹ کے فیصلے کو آئین کی دفعات کے التزامات کی کسوٹی پر رکھ کر غلط ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
 سپریم کورٹ میں دوسرے دن بھی  جرح کی شروعات سینئر ایڈوکیٹ دیودَت کامت نے کی اور سب سے پہلے انہوں نے عدالت کو ان سوالوں کا جواب دیا جو بدھ کو ان سے پوچھے گئے تھے۔ کامت نے کہا کہ پابندیاں نظامِ قانون، اخلاقیات اور صحت اسباب کی بنیاد پر عائد کی جاتی ہیں لیکن کوئی  یہ بتاسکتا ہے کہ اسکولوں میں حجاب پہننے پر پابندی کیا نظامِ قانون، اخلاقیات اور صحت اسباب سے لگائی گئی پابندی کے دائرے میں آتی ہے؟ اس طرح کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ قابل قبول نہیں ہو سکتا اور نہ ہی یہ کوئی آئینی پابندی ہے۔کامت نے اپنی دلیل کو مضبوطی کے ساتھ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حجاب پہننا یا نہیں پہننا مذہبی  عقیدے کا معاملہ ہے۔ ’لازمی مذہبی اصولوں‘ کا سوال تب اٹھتا ہے جب ریاست اسے لے کر کوئی قانون بناتی ہے۔ کامت کے مطابق تمام مذہبی اصول لازمی نہیں ہو سکتے لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ حکومت اس پر اپنی مرضی کے مطابق  پابندی لگا دے۔ یہ تب تک نہیں کیا جا سکتا جب تک یہ نظامِ قانون یا کسی کی صحت کو متاثر نہ کر رہا ہو ۔
  کامت نے اپنی اور سینئر ایڈوکیٹ پراشرن کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نمام(ٹیکہ) لگاتا ہوں، وہ بھی نمام لگاتے ہیں۔ یہ لازمی مذہبی اصول بھلے نہ ہو لیکن کیا اس سے کورٹ روم کا ڈسپلن ختم ہوتا ہے؟ کیا کوئی انہیں یہ پہننے سے روک سکتا ہے؟‘‘ اس پر جسٹس ہیمنت گپتا نے انہیں ٹوکا اور کہا کہ بالکل سامنے کی چیز مثال کے طور پر پیش نہ کی جائے۔ دیودت کامت نے اپنی دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ کیا سر پر اسکارف باندھنے کی اجازت دے دی جاتی ہے، تو کل کو کچھ طلبہ کہیں گے کہ انھیں بھگوا گمچھا پہننا ہے۔ میرے حساب سے بھگوا گمچھا پہننا اپنے مذہبی عقیدےکا فطری مظاہرہ نہیں ہےبلکہ یہ مذہبی کٹر پسندی کا قصداً کیا گیا مظاہرہ ہے۔ یہ ایسا ہے کہ اگر آپ حجاب پہنو گے تو میں بھی  اپنی مذہبی شناخت ظاہر کرنے کے  لئے کچھ نہ کچھ پہنوں گا۔  انہوں نے یہ سوال بھی پوچھا کہ میری موکلین کے ذریعے حجاب پہننے سے کسی کے مذہبی جذبے کو ٹھیس کیسے پہنچ سکتی ہے۔ 
  واضح رہے کہ حجاب معاملے میں سماعت کے دوران کئی مواقع پر قرآن، حدیث اور سورتوں کے حوالے بھی پیش  کئے گئے۔ ایک موقع پر جسٹس ہیمنت گپتا نے طالبات کے ایک اور وکیل ایڈوکیٹ نظام پاشا سے سوال کیا کہ ہم جاننا چاہیں گے کہ قرآن کی کس آیت میں حجاب کو ضروری بتایا گیا ہے؟ جواب میں نظام پاشا نے قرآن میں حجاب کے حوالے سے آنے والے الفاظ بتائے مگر انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں حجاب لفظ  ہی  زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بعد نظام پاشا نے کچھ قرآنی سورتوں کا تذکرہ کیا۔اس درمیان جسٹس دھولیا نے کہا کہ آپ ہمیں ہائی کورٹ کے فیصلے کے اس حصے کے بارے میں بتائیے جہاں اس پر بحث ہوئی ہے۔ اس سے ہمیں سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ جواب میں پاشا نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں اس حصے کا  تذکرہ کیا اور اسے پڑھ کر سنایا۔  انہوں نے کہا کہ حالانکہ یہ غلط فہمی کی بنیاد پر حوالہ دیا گیا ہے کیوں کہ جس آیت کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ جبراً تبدیلیٔ مذہب کے خلاف ہے۔ نظام پاشا نے بنچ کو اسلام کے بنیادی ستون نماز، روزہ، زکوٰۃ، توحید اورحج کے بارے میں بھی بتایا اور کہا کہ یہ اسلام کے لازمی حصے ہیں۔

hijab Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK