Inquilab Logo

مسلم لڑکیوں کا ملازمت حاصل کرنا انتہائی مشکل، حجاب دیکھ کر امتیازی سلوک

Updated: July 08, 2022, 12:07 PM IST | Agency | New Delhi

ایک سماجی تنظیم کی جانب سے ایک ہی عہدے کیلئے مساوی لیاقت والے بائیوڈیٹا بھیجے جانے پر تقریباً نصف مسلم لڑکیوں کو انٹرویو کیلئے کوئی فون نہیں آیا جبکہ غیر مسلم لڑکیوں کو فوراً بلا لیا گیا۔ حجاب والی لڑکیوں سے واضح طور پر اجتناب

Hijab-wearing Muslim girls also face discrimination for employment.Picture:INN
با حجاب مسلم لڑکیوں کو ملازمت کیلئے بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ تصویر: آئی این این

ممبئی کی ایک ڈاکٹر ہیں۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کئی اسپتالوں اور کلینک میں ملازمت کیلئے درخواستیں دیں۔ میڈیکل کی تعلیم انھوں نے بہت اچھے نمبروں کے ساتھ مکمل کی تھی، اس لئے انھیں جلد ہی ملازمت مل جانے کی امید تھی۔انھوں نے کئی اداروں میں درخواست دی لیکن انھیں کہیں سے مثبت جواب نہیں آیا۔وہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے سوچا کہ شاید دیگرامیدوار مجھ سے زیادہ قابل ہوں،  مجھ سے زیادہ تجربہ کار ہوں شاید اسی لئے مجھے نہیں لیا گیا۔کچھ دن بعد میں نے ایک پرائیوٹ کلینک میں درخواست دی۔ وہ میرے کالج کے ایک سابق پروفیسر چلا رہے تھے۔ ان کی اہلیہ نے مجھے بتایا کہ تم حجاب پہنتی ہو اسلئے بعض مریضوں کو اس پر اعتراض ہو سکتا ہے۔ اس لئے تم یہ امید مت کرو کہ تمہیں یہاں ملازمت مل جائے گی۔مجھے اس وقت احساس ہوا کہ مجھے ملازمت کیلئے کال کیوں نہیں آتی تھیں۔ جہاں جہاں میں نے خود جا کر درخواست جمع کروائی تھی وہاں سے مجھے کال نہیں آئی اور جہاں میں نے آن لائن ایپلی کیشن بھیجی تھی یا جہاں انھوں نے مجھے نہیں دیکھا تھا وہاں سے کال تو آئیں لیکن انٹرویو کے بعد مجھے نہیں لیا گیا۔‘‘ یہ کہانی صرف تبسم کی ہی نہیں۔ لکھنؤ کی نائلہ (فرضی نام) کو تو ایک اسکول کے استقبالیہ پر ہی بتا دیا گیا تھا کہ اگر یہاں ملازمت کرنی ہے تو سکارف اتارنا ہو گا۔نائلہ نے بتایا کہ ’’میں نے ان سے کہا کہ اگر یہ آپ کی پالیسی ہے تو جاب ایپلی کیشن کی شرائط میں اس کا ذکر ہونا چاہئے۔ کچھ دن بعدا سکول سے فون آیا کہ آپ امتحان کیلئے کال لیٹر لے جائیں۔ میں وہاں دوبارہ نہیں گئی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھے جاب نہیں دیں گے۔‘‘ مسلم خواتین، خاص طور سے وہ لڑکیاں جو حجاب پہنتی ہیں، اکثر ملازمتوں میں تفریق کا ذکر کرتی ہیں اور ملازمتوں میں ان کی نمائندگی بہت کم ہے۔گزشتہ دنوں ایک غیر سرکاری ادارے ‘لیڈ بائی‘ نے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ملازمتوں میں ۴۷؍ فیصد مسلم لڑکیوں کے ساتھ تفریق برتی جاتی ہے یعنی جتنی بھی مسلم لڑکیاں ملازمت کیلئے درخواست دیتی ہیں ان میں سے تقریباً نصف کو مسلم ہونے کے سبب ملازمت نہیں ملتی۔ ’لیڈ بائی‘ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر روہا شاداب نے بتایا کہ ہندوستان کی ورک فورس میں مسلم خواتین کی نمائندگی اور ممکنہ تفریق کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔   منموہن سنگھ کے دور اقتدار میں صرف سچر کمیٹی کی رپورٹ میں مسلم خواتین کی نمائندگی پر نظر ڈالی گئی تھی۔ ہماری پہلی ایسی کوشش ہے جس میں ملازمتوں میں مسلم خواتین کو درپیش چیلنج کا مطالعہ کیا گیا ہے۔‘‘  ڈاکٹر روہا شاداب کے مطابق اس تحقیق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہندو لڑکیوں کے مقابلے ۴۷؍ فیصد مسلم لڑکیوں کو ملازمت کیلئے کال نہیں آئی۔ڈاکٹر روہا نے بتایا کہ اس تحقیق کیلئے ایک نیا طریقۂ کار اختیار کیا گیا تھا۔ابتدائی کیرئیر کی ملازمتوں میں درخواست دینے کیلئے ایک بائیو ڈیٹا تیار کیا گیا۔ یہی بائیو ڈیٹا جاب کیلئے حبیبہ علی اور پرینکا شرما کے نام سے بھیجا گیا۔ ۱۰؍ مہینے کی مدت میں جاب سرچ کی کئی ویب سائٹ پر دستیاب مختلف نوکریوں کیلئے الگ الگ ایک ہزار درخواستیں حبیبہ کے نام سے اور ایک ہزار درخواستیں پرینکا شرما کے نام سے دی گئیں۔ ان درخواستوں میں لڑکیوں کی تصویریں نہیں لگائی گئی تھیں۔اس طریقۂ کار سے تفریق کی شرح واضح طور پر سامنے آ گئی، جو ۴۷؍ فیصد سے زیادہ تھی۔ ہندو خاتون درخواست کنندہ کو ۲۰۸؍ جگہوں سے مثبت جواب ملا جبکہ اس کے مقابلے مسلم خاتون کو صرف ۱۰۳؍کال ملیں۔ یہی نہیں ملازمتیں دینے والی کمپنیاں ہندو خاتون کے تئیں زیادہ پرخلوص تھیں اور ۴۱؍فیصد سے زیادہ کمپنیوں نے پرینکا سے فون پر رابطہ کیا جبکہ صرف ساڑھے ۱۲؍ فیصد ریکروٹر نے حبیبہ سے فون پر رابطہ قائم کیا۔
 اس مطالعے میں ایک اور بات سامنے آئی کہ مسلم خاتون کے ساتھ تفریق کی شرح شمالی ہندوستان میں کم یعنی ۴۰؍ فیصد تھی جبکہ مغربی ہندوستان  میں ۵۹؍ اور  جنوب میں ۶۰؍ فیصد تھی۔ڈاکٹر روہا کہتی ہیں کہ یہ مطالعہ ورک فورس میں مسلم خواتین کو درپیش چیلنج کا پہلا جائزہ ہے لیکن یہ مکمل جائزہ نہیں ہے۔ہمیں نہیں معلوم کہ اگر رزیومے میں مسلم لڑکی حبیبہ کی حجاب میں کوئی تصویر لگا دی گئی ہوتی تو اس کا کیا نتیجہ ہوتا۔ ہم نے شرما ٹائٹل کے ذریعے پرینکا کی ایک برہمن لڑکی کے طور پر شناخت کی تھی۔ اگر اس کی جگہ کسی دلت لڑکی کا نام ہوتا تو شاید رزلٹ کچھ اور ہوتا لیکن اس مطالعے سے یہ واضح ہے کہ مسلم خواتین کے ساتھ ملازمتوں میں بڑے پیمانے پر تفریق ہو رہی ہے۔لیڈ بائی فاؤنڈیشن مسلم خواتین کو کاروبار، تجارت اور کارپوریٹ شعبے میں آگے جانے کی تربیت دیتی ہے۔لیڈ بائی فاؤنڈیشن کی ‘بائس ان ہائرنگ‘ یعنی ‘بھرتیوں میں تعصب‘ کے عنوان سے اس رپورٹ پر سوشل میڈیا پر بھی کئی لوگوں نے تبصرے کئے ہیں۔ امیت ورما نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’’اس سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف ہماری سیاست بلکہ معاشرہ بھی مسلم مخالف ہے۔‘‘ایک اور صارف نے لکھا کہ ’’یہ مطالعہ ورک پلیس میں مسلم مخالف روش کو بہت معقول طریقے سے سامنے لاتاہے۔‘‘آمنہ نے لکھا کہ یہ آنکھ کھولنے والا سروے ہے۔ مسلم خواتین کو ہر صنعت اور سطح پر تفریق کا سامنا ہے۔واضح رہے کہ اس رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ تفریق کے سبب ملکی معیشت بہترین تربیت یافتہ ذہنوں سے محروم ہو رہی ہے اور مختلف تنظیمیں، تحقیقی ادارے اور انفرادی طور پر لوگ ایک موزوں ماحول بنا کر ملازمتوں میں مسلم خواتین کا حصہ بڑھانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK