Inquilab Logo

ہوٹلوں میں اب ’سروس چارج ایکسٹرا‘ نہیں لیا جائے گا

Updated: July 07, 2022, 12:46 PM IST | Agency | Mumbai

سی سی پی اے نے گاہکوں سے کھانے کی قیمت کے علاوہ اضافی پیسے وصول کرنے کو غیر قانونی قرار دیا۔ہوٹل مالکان فیصلے سے ناراض لیکن صارفین کیلئے بڑی راحت

Consumers will no longer have to loosen their pockets for service charges.Picture:INN
سروس چارج کیلئےصارفین کو اب جیبیں ڈھیلی نہیں کرنی پڑیں گی۔ تصویر: آئی این این

اکثر بڑے ہوٹلوں میں گاہکوں سے کھانے کے دام کے علاوہ سروس چارج کے نام پر اضافی رقم وصول کی جاتی ہے جوکہ عام طور پر گاہکوں کو گراں گزرتی ہے۔  لیکن اب ہوٹل والے ایسا نہیں کر سکیں گے کیونکہ   سینٹرل کنزیومر پروٹیکشن اتھاریٹی (سی سی پی اے) نے اس طرح کے کسی بھی اضافی چارج کو ممنوع قرار دیدیا ہے۔ واضح رہے کہ سی سی پی اے نے   یہ حکم صارفین کی جانب سے کھانے کے اصل بل پر اضافی رقم ادا کرنے کیلئے ہوٹلوں اور ریستورانوں کی جانب سے دباؤ ڈالنے کی مسلسل شکایتوں کے بعد جاری کیا ہے۔  یاد رہے کہ  ہوٹل اور ریستوراں بالعموم صارفین سے اصل بل پر ۵؍ تا ۱۵؍ فیصد رقم ’سروس چارج‘ کے طور پر وصول کرتے ہیں۔ سرکاری ٹیکس ’جی ایس ٹی‘( گڈس اینڈ سروسیز ٹیکس) اس کے علاوہ  ہوتاہے۔سی سی پی اے نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ صارفین کو سروس چارج ادا کرنے کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی صارف اپنی مرضی سے `ٹپ دینا چاہتا ہے تو یہ اس کی مرضی پر منحصر ہو گا۔سی سی پی اے نے اس حوالے سے نئے ضوابط جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہوٹلوں پر’’کسی بھی دیگر نام سے’ یا ‘ٹپ دینے سے انکار کرنے پر صارفین کو خدمت فراہم کرنے یا داخل ہونے سے روکنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اگر ہوٹل اس نئے ضابطے کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو صارف اس ہوٹل یا ریستوراں کے خلاف صارفین کے قومی ہیلپ لائن کے ذریعہ شکایت درج کروا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ عام طور پر گاہک ہوٹل کے بیروں کو جو ٹپ دیتے ہیں وہ بہت معمولی ہوتی ہے جبکہ سروس چارج کے نام پر جو رقم وصول کی جاتی ہے وہ اصل بل کے تناسب سے وصول کی جاتی ہے جو گاہکوں گراں گزرتی ہے۔ 
سروس چارج ایک متنازع معاملہ
 واضح رہے کہ پچھلے کئی برسوں سے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں `ٹپ دینے یا سروس چا رج کے معاملے پر اکثر ناخوشگوار واقعات دیکھنے کو مل رہے تھے۔ صارفین کی یہ مسلسل شکایت تھی کہ ہوٹل والے انہیں پہلے سے یہ کبھی نہیں بتاتے کہ اصل بل پر انہیں اضافی طور پر سروس چارج بھی دینے پڑیں گے۔ ۲۰۱۷ء میں صارفین کے امور کی وزارت نے بعض گائیڈ لائنز جاری کی تھیں، جن کے مطابق صارفین سے مینو کارڈ پر درج قیمت کے علاوہ صرف سرکاری ٹیکس (جی ایس ٹی) ہی لیا جائے گا۔ وزارت کا کہنا تھا کہ یہ صارف کی مرضی ہے کہ وہ  ٹپ دے یا نہ دے۔لہٰذااس کی مرضی کے بغیر اضافی چارج وصول کرنے کو ’غیر قانونی‘ سمجھا جائے گا۔
ہوٹل مالکان کی دلیل
 حکومت نے ہوٹلوں اور ریستورانوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے ملازمین کی مناسب تنخواہیں دیں ۔ ہاں اس خرچ کو پورا کرنے کیلئے وہ اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ تاہم ریستوراں کے مالکان اس کے باوجود بلوں میں سروس چارج کے طور پر اضافی رقم لیتے رہے۔حکومت نے گزشتہ ماہ ہوٹلوں کی انجمن نیشنل ریسٹورنٹ ایسوسی ایشن آف انڈیا(این آر اے آئی) کے ساتھ ایک میٹنگ کی تھی اور کہا تھا کہ انہیں صارفین کی طرف سے مسلسل یہ شکایتیں موصول ہو رہی ہیں کہ ہوٹل انہیں سروس چارج ادا کرنے کیلئے مجبور کرتے ہیں، جو عام طور پر ایک بڑی رقم ہوتی ہے۔ اور سروس چارج حذف کرنے کی درخواست کرنے پر صارفین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔
 ۵؍ لاکھ سے زائد ریستورانوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم این آر اے آئی کی دلیل تھی کہ یہ ایک ’انفرادی پالیسی کا معاملہ‘ ہے اور اس طرح کے چارج وصول کرنا ’غیر قانونی‘ نہیں ہے۔ تنظیم کا کہنا تھا کہ جب مینو کارڈ میں `سروس چارج ایکسٹرا لکھا ہو تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ صارف اسے ادا کرنے پر رضامند ہے۔ سروس فیس کو کھانے کی قیمت میں شامل نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا استعمال ہوٹل کے اسٹاف کو تنخواہوں کی ادائیگی  کیلئے کیا جاتا ہے۔این آر  اے آئی کے صدر کبیر سوری نے حکومت کے نئے حکم نامے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ’’ سروس چارج نہ تو غیر قانونی ہے اور نہ ہی غلط طریقۂ کار، جیسا کہ الزام لگایا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر عوامی بحث کر کے غیر ضروری طور پر کنفیوژن پیدا کیا جا رہا ہے، جس سے ہوٹلوں کو اپنا کاروبار کرنے میں پریشانی ہو گی۔‘‘ ہوٹل مالکان اور ان کی تنظیمیں کچھ بھی کہیں سی سی  پی اے  کے اس فیصلے سے گاہکوں میں خوشی ہے اوروہ اسے ایک بڑی راحت قرار دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سروس چارج اکثر مہنگے ہوٹلوں میں وصول کیا جاتا ہے جہاں ایک ہی وقت میں ہزاروں کا بل یوں ہی بن جاتا ہے ۔ اس اعتبار سے سروس ٹیکس بھی بل کے تناسب کے مطابق کافی زیادہ ہوتا ہے جو کہ ایک عام گاہک کیلئے اہمیت رکھتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK