Inquilab Logo Happiest Places to Work

 ہائی کورٹ نے کس طرح ٹرین بم دھماکوں کے کیس میں اے ٹی ایس جانچ کی خامیوں کو پکڑا

Updated: July 23, 2025, 1:08 PM IST | Mumbai

اعترافی بیانات میںیکسانیت ،ٹارچر کے ثبوت اورکمزور شواہدنے کیس بے قصوروںکے حق میں کردیا ۔ عدالت نے طبی شواہد اور بیانات کی ٹائم لائن کا بھی مشاہدہ کیا تھا

Justice Anil Satya Vijayalakshmi
جسٹس انل ستیہ وجےکیلور

 ۱۱/۷؍کے حملوں کے مقدمہ میں اقبال جرم کے بیانات میں یکسانیت ، اقبال جرم سے پہلے حراستی تشدد کے الزامات اور ریاستی حکومت کے پاس ایسے شواہد کی عدم موجودگی جن کی بنیاد پر ملزموں کے خلاف دہشت گردی کے سخت قوانین کے اطلاق کی ’پیشگی منظوری‘ دے دی گئی ،یہ وہ عوامل اور اسباب ہیں جنہیں پیش نظر رکھتے ہوئے بامبے ہائی کورٹ نے ۲۰۰۶ء  میں ہوئے ممبئی ٹرین بم دھماکوں کے کیس میں ۱۲؍ ملزموں کو بری کردیا۔
 ملزموںکے خلاف چلائے گئے مقدمے میں تضادات کو واضح کرتے ہوئے عدالت نے استغاثہ کے دوگواہوں کے بیانات پیش کئے۔  ان میں پہلے ڈپٹی کمشنر آف پولیس برجیش سنگھ  اور دوسرا  ڈی ایم پھڑترے تھے۔ان کے بیانات دومختلف تاریخوں، مختلف مقامات اور مختلف اوقات میں قلمبند کئے گئے تھے۔ عدالت نے اس پر جو تبصرہ کیا، وہ ان الفاظ میں ہے۔ عدالت نے کہا ’’ طویل غوروخوض کے بعد بھی یہ نا ممکن معلوم ہوتا ہےکہ دونوں کے بیانات میں ایک جیسے سوالات پوچھے گئے اور جوابات بھی ایک جیسے دئیے گئے ۔  اس سے گوا ہوں کے بیانات کی سچائی اور انہیں ریکارڈ کرنے کیلئےجو طریقہ اختیار کیا گیا ، وہ شبہات کے گھیرے میں آتا ہے۔‘‘ 
 مختلف ڈی سی پیز نے اعترافی بیانات ریکارڈ کئے لیکن شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف پوچھے گئے سوالات یکساں تھے بلکہ ان کے جوابات بھی یکساں تھے اور یہاں تک کہ جملوں کی ادائیگی اورالفاظ کے انتخاب بھی کافی حد تک ایک جیسے تھے۔ عدالت نے تبصرہ کیا کہ ’’ اگر یہ فرض بھی کرلیاجائے کہ بیانات ریکارڈ کرنے میں سہولت کیلئےاگر سوالوں کا ایک فارمیٹ دیا بھی گیا ہو تب بھی جوابات کس طرح  ایک جیسے ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جوابات  میں کہے گئے الفاظ اور جملوں کا ہو بہو یکساں ہونا تو اس وقت تک ممکن ہی نہیں تھا جب تک کہ (جوابات) کاپی نہ کئے جائیں یا (جوابات )کا بھی ایک فارمیٹ نہ دیا جائے۔‘‘
 پھریہ بات بھی اہمیت کی حامل ہےجس کی عدالت نے نشاندہی کی کہ گواہوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھے جو بیانات عدالت کو دئیے، ان میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے اعترافی بیانات ایجنسیوں کے دباؤ میں دئیے۔ ان بیانات میں حراستی تشدد کے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ عدالت نے طبی شواہد اوربیانات کی ٹائم لائن کا مشاہدہ کرتے ہوئےیہ بھی واضح کیا کہ ان سے شبہات جنم لیتے ہیں۔ عدالت نے کے ای ایم اور بھا بھا اسپتال کے ڈاکٹروںکے بیانات کابھی حوالہ دیتے ہوئے اقبال جرم کے دوران حراستی تشدد کا واضح اشارہ دیا۔عدالت نے کہا کہ اعترافی بیانا ت رضاکارانہ نہیں تھےبلکہ تشدد کا نتیجہ تھے۔

 عدالت نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ملزموںکے ریمانڈکا مطالبہ کرتے ہوئے استغاثہ  کا مقدمہ اکثریہی رہتا کہ وہ تحقیقات میں تعاون نہیںکررہے ہیں ۔ بہرحال۲۴؍ ستمبر ۲۰۰۶ء کو ملزموں پر مکوکا کی دفعات عائد کر کے ۴؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو پہلا اعترافی بیان بھی ریکارڈ کرلیا گیا۔ اس کے بعد پھر  اقبال جرم پر مبنی بیانات قلمبند کرنے کا ایک سلسلہ چل پڑا جو ۲۵؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء تک جاری رہا۔ 
 مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (مکوکا)کے تحت  پولیس کے سامنے دیا گیا اعترافی بیان بھی ثبوت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ عام مجرمانہ قانون سے مختلف ہے جس کے تحت صرف عدالت میںد ئیے گئے اعترافی بیان کو ثبوت کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ عدالت نے سبھی بیانات کا بغور جائزہ لیا اوریہ جاننے کی کوشش کی کہ (اس جرم سے متعلقہ) جو واقعات ہوئے ہیں ان کی بنیاد پران کے جوابات میںکیا خلاء پایا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر ملزم نمبر۶؍شیخ محمد علی عالم شیخ  کے بیان کا مشاہدہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس نے یہ نہیں بتایا کہ ۱۵؍ کلوگرام آر ڈی ایکس کہاں استعمال کیاگیا تھا اور اس میں سے کچھ چھوٹ بھی گیا تھا یا نہیں اور اگر چھوٹ گیا تھا تو اسے کون لے گیااوراسے کہاں رکھا گیا۔ حالانکہ اس نے آر ڈی ایکس اپنے گھر لے جانے کا اعتراف کیاتھا۔
 ملزموں پر مکوکا عائد کرنے کیلئے کسی اتھاریٹی کی جانب سے ’پیشگی منظوری‘ درکار ہوتی ہے۔اس کیلئے ایک پولیس افسر  ہونا چاہئے  جس کا رینک ڈی جی پی سے کم نہ ہو۔ پیشگی منظوری کے بغیر مکوکا عائد ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اس قانون کا غلط استعمال روکنے کیلئے یہی طریقہ کار ہے۔ یہ ایسا قانون ہے جس سے بارثبوت ملزموںپر ڈال دیاجاتا ہے ، طویل مدت تک حراست کی اجازت دیتا ہے اور شواہد کے معیارکو کم کردیتا ہے۔عدالت نے اس ضمن میں بھی یہ واضح نشاندہی کی کہ ملزموں کے خلاف مکوکاعائد کرنے کی منظوری صرف ڈھائی صفحات پر مشتمل ایک تجویز  کے ذریعے لی گئی تھی اوراس کی تائید میں دیگر کوئی دستاویزات نہیں تھے۔
 عدالت نے کہا کہ’’ منظم جرائم، غیرقانونی سرگرمیوں اورجرائم کے منظم سنڈیکیٹ کی تعریف میں استعمال  کئےگئے کچھ تاثرات کو بس یونہی پیش کردینااور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا کہ  ان کا تعلق ملزموں کی سرگرمیوں سے ہے، آئین وقانون کی روح کے منافی ہےاورمحض ان بنیادوں پر مکوکا کی دفعات کے اطلاق کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔‘‘عدالت نے ملزموںکی شناختی پریڈ(ٹی آئی پی )کو یہ بھی کہتے ہوئے مسترد کردیاکہ جس اسپیشل ایگزیکٹیو آفیسر (ایس ای او) نےیہ پریڈ کرائی تھی ،اسے اس کا اختیار نہیں تھا۔ واضح رہےکہ جسٹس انیل کیلور اور جسٹس شیام چانڈک  پرمشتمل اسپیشل ڈیویژن بینچ   نے یہ تبصرے کئے۔ بینچ نے یہ بھی کہاکہ  موجودہ شواہد پر غور کرتے ہوئے بینچ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ملزموں کو۷۶؍ دن کی طویل حراست میں رکھا گیا تھا اوراپنے ریمانڈ کے دوران انہوں نے جو اعترافی بیان ریکارڈ کرایا تھا،اس سے وہ عدالت میں پیشی سےعین قبل منحرف ہوگئے تھے۔ ججوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ۲؍ ملزموں کے پاس سے جو سرکٹ بورڈ برآمد کئے گئے تھے، ان سے استغاثہ کوکوئی مدد نہیںملی اوریہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ اس کے ذریعے کس قسم کے بم استعمال کئے گئےتھے۔  
 اس کے علاوہ بینچ نےاے ٹی ایس افسران کے ذریعے کال ڈیٹا ریکارڈس (سی ڈی آر)کو تباہ کئے جانے پر گہرے شبہات کا ا ظہار کیا اور سوالات اٹھائے۔ بینچ نے کہاکہ استغاثہ سی ڈی آر کے ذریعےملزموںکی نقل وحرکت اوران کے مقامات کابہ آسانی تعین کرسکتا تھا لیکن سی ڈی آر کو ہی تباہ کردیاگیا۔ اس سےتفتیشی ایجنسی کے اہلکاروں کے ذریعے کیس کی دیانتدارانہ تحقیقات پرسنگین سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK