• Wed, 24 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ناندیڑ کی سیاست میں دل بدلی سے زبردست سیاسی ہلچل

Updated: December 24, 2025, 12:15 AM IST | Nanded

ڈیڑھ سال قبل اشوک چوان کے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد کانگریس کمزورپڑ گئی۔کارپوریٹرس پارٹی چھوڑکر بی جے پی اور ایم آئی ایم میں شامل ہورہے ہیں

Congress corporators along with their supporters leaving to join the AIMIM. (Photo: Inqil)
کانگریس کے کارپوریٹر اپنے حامیوں کے ہمراہ ایم آئی ایم میں شامل ہونے کیلئے جاتے ہوئے۔ (تصویر: انقلاب)

 ناندیڑ کی مقامی سیاست میں ان دنوں زبردست ہلچل  مچی ہوئی ہے۔ کانگریس کے سابق سینئر لیڈر اشوک چوان کے ڈیڑھ سال قبل پارٹی چھوڑ کر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد سے ناندیڑ ضلع کی سیاسی بساط تیزی سے بدلتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس فیصلے نے نہ صرف کانگریس کی تنظیمی بنیادوں کو کمزور کیا ہے بلکہ مقامی سطح پر طاقت کے توازن کو بھی متاثر کیا ہے۔۔اشوک چوان کے بی جے پی میں جانے کے بعد ناندیڑ میں ایک واضح رجحان سامنے آیا ہے۔ ۴۰؍سے زائد  کارپوریٹرس جو اب تک انڈین نیشنل کانگریس سے وابستہ تھے، اشوک چوان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بی جے پی میں شمولیت کو ہی اپنے سیاسی مستقبل کیلئے محفوظ راستہ سمجھ کر ایک ایک کرکے بی جے پی میں شامل ہوگئے ۔اس کے نتیجے میں کانگریس دن بہ دن کمزور ہوتی چلی گئی اور اس کی تنظیمی گرفت ڈھیلی پڑتی دکھائی دینے لگی ۔ان بدلتے حالات نے کانگریس کے مسلم کارپوریٹرس کو بھی بے چین کر دیا ہے۔ 
  زمینی حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلم کارپوریٹرس بی جے پی میں شامل ہوتے تو انہیں مسلم رائے دہندگان کی جانب سے قبولیت ملنا مشکل تھا۔اسی سیاسی مجبوری کے تحت ان ایک درجن سے زائد مسلم کارپوریٹرس نے کانگریس سے علاحدگی اختیار کرتے ہوئے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (ایم آئی ایم )میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے جسے وہ اپنے ووٹ بینک اور سیاسی شناخت کے تحفظ کا بہتر ذریعہ سمجھتے ہیں۔
 ایم آئی ایم میں شامل ہونے والوں میں سابق نمائندہ میئر عبدالحفیظ باغبان،سابق ڈپٹی میئر مسعود احمد خان،سابق اسٹینڈنگ کمیٹی چیئرمن شمیم عبداللہ،سابق کارپوریٹرعبدالحبیب باغبان،عبدالرشید،عبدالطیف لوکھنڈوالا،سابق نمائندہ کارپوریٹر ایڈوکیٹ واجد،انصار احمد خان اور دیگر افراد کے نام شامل ہیں۔اچانک اتنی بڑی تعداد میں کانگریس کے نمائندے بی جے پی اور ایم آئی ایم میں شامل ہونے سے کانگریس میں شدید بحران پیدا ہوگیاہے ۔صورتحال اس حد تک سنگین ہوگئی ہے کہ جو پارٹی کے پچھلے انتخابات میں۸۱؍ میں سے۷۳؍ سیٹوں پر یکطرفہ کامیابی حاصل کرکے نمبر ایک پارٹی بنی ہوئی تھی، اس پارٹی کو اب شہر کے تمام انتخابی حلقوں میں امیدوار تلاش کرنا مشکل ہوگیاہے ۔
 جولوگ کانگریس پارٹی چھوڑ کر ایم آئی ایم میں شامل ہورہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ کانگریس میں قیادت کا بحران پیدا ہوگیاہے ۔ضلعی سطح پر جو لوگ پارٹی کی کمان سنبھال رہےہیں ، اس قابل نہیں ہے کہ ان کی قیادت میں میونسپل کارپوریشن جیسا مشکل ترین انتخاب لڑاجاسکے اور ریاستی قیادت مقامی معاملات میں دلچسپی لینے کیلئے تیار نہیں ہے ایسے میں سب کویہ لگ رہاہے کہ کانگریس پارٹی ایک ڈوبتا جہاز ہے اور اس میں رہیں گے تو ہم بھی ڈوب جائیں گے اس لئے جس کو جہاں سے کوئی متبادل راستہ نظر آرہاہے،  وہ وہاں پناہ لینے کی کوشش کررہاہے ۔
 مسلم کارپوریٹرس بی جےپی میں شامل نہیں ہوسکتے اس لئے انہوں نے ایم آئی ایم کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی و عوامی حلقوں میں یہ بحث زور پکڑتی جا رہی ہے کہ اس پوری صورتِ حال کے پیچھے بھی اشوک چوان کی حکمت ِ عملی کارفرما ہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق اشوک چوان نہیں چاہتے کہ مسلم اکثریتی حلقوں سے ماضی میں کامیاب ہونے والے کانگریس کےمسلم کارپوریٹرس اس بار بھی کامیابی حاصل کریں۔ اسی لئے کانگریس کو کمزور اور ایم آئی ایم کو نسبتاً مضبوط کرنے کی حکمت ِ عملی اپنائی جا رہی ہے اور جولوگ ایم آئی ایم  میں جارہے ہیں ،انہیں کہیں نہ کہیں اشوک چوان کی چھپی ہوئی حمایت ملی ہوئی ہے تاکہ انتخابات کے بعد اگر اقتدار کے لئے چند نشستوں کی ضرورت پیش آئے تو کانگریس پارٹی سے مدد کی کوئی امید نہیں ہے ۔
 یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پچھلے بلدیاتی انتخابات میں جب اشوک چوان کانگریس میں تھے، ان کی قیادت میں کانگریس نے۸۱؍ میں سے۷۱؍سیٹیں جیت کر یکطرفہ کامیابی حاصل کی تھی مگر موجودہ منظرنامے میں صورتحال بالکل برعکس نظر آ رہی ہے۔ کانگریس کے تقریباً تمام کارپوریٹرس ایک ایک کر کے پارٹی چھوڑ رہے ہیں جس سے پارٹی کا وجود شدید دباؤ میں آ گیا ہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس سیاسی اتھل پتھل کا براہِ راست فائدہ بی جے پی کو تو مل ہی رہا ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ  ایم آئی ایم  میںبھی سیاسی مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
  ناندیڑ کی سیاست اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے، جہاں آنے والے دنوں میں ہونے والی سیاسی جوڑ توڑ نہ صرف بلدیاتی انتخابات بلکہ شہر کے مستقبل کی سیاست کا رخ بھی طے کرے گی۔

nanded Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK