امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور فوجی سربراہ عاصم منیر کی وہائٹ ہاؤس میں ملاقات نے نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ ایف بی آئی ڈائریکٹرکیش پٹیل اور عاصم منیر کے مصافحے پر انٹرنیٹ پر سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
EPAPER
Updated: September 29, 2025, 11:02 AM IST | Washington
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور فوجی سربراہ عاصم منیر کی وہائٹ ہاؤس میں ملاقات نے نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ ایف بی آئی ڈائریکٹرکیش پٹیل اور عاصم منیر کے مصافحے پر انٹرنیٹ پر سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعرات کو (امریکی وقت کے مطابق) وہائٹ ہاؤس میں پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی میزبانی کی۔ سرکاری طور پر جاری ہونے والی تصاویر کے مطابق، ریپبلکن لیڈر واحد اہم امریکی شخصیت نہیں تھے جنہوں نے گذشتہ ہفتے اوول آفس میں جنوبی ایشیائی حکام سے ملاقات کی۔ اس موقع پر نائب صدر جے ڈی وینس، سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو، ڈپٹی وہائٹ ہاؤس چیف آف اسٹاف اسٹیفن ملر، امریکی پروٹوکول چیف مونیکا کروولی، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف بی آئی ڈائریکٹر کیش پٹیل کو بھی ان سے خوشگوار مصافحہ کرتے دیکھا گیا۔ ایف بی آئی سربراہ کی عاصم منیر سے ہاتھ ملاتے ہوئے تصویر نے انٹرنیٹ پر ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے، جہاں کئی لوگوں نے اس ملاقات پر تنقید کی ہے، اور خاص طور پر پٹیل کو اس اشارے پر نشانہ بنایا ہے۔ گجرات نژاد امریکی ایف بی آئی ڈائریکٹر کیش پٹیل کو اس پیش رفت پر زیادہ تنقید کا سامنا ہے، کیونکہ ہندوستان اور پاکستان جیسے ایٹمی طاقت رکھنے والے پڑوسی ممالک کے درمیان طویل تنازعات چلے آ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: گلوبل صمود فلوٹیلا غزہ سے۴۶۳؍ بحری میل کے فاصلے پر، خطرناک زون میں داخلے کے قریب
انٹرنیٹ پرکیش پٹیل اور پاکستانی فوجی سربراہ کی ملاقات پر ردعمل
انٹرنیٹ صارفین نے خاص طور پر مذہب کے پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والی اس ملاقات کی سیاست پر تبصرے کئے۔ کئی لوگوں نے اس بات پر اعتراض کیا کہ پٹیل ایک ہندو ہیں، جبکہ پاکستانی فوجی سربراہ نے عوامی سطح پر ’’ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نمایاں فرق‘‘ پر زور دیا ہے۔ اگرچہ پٹیل نے اپنے مذہبی عقیدے کے بارے میں زیادہ کھل کر بات نہیں کی لیکن وہ ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوئے اور اس سال کے شروع میں اپنی تصدیقی سماعت کے دوران نمایاں طور پر ’’جے شری کرشنا‘‘ کا نعرہ لگایا۔ ادھر عاصم منیر نے ’’دو قومی نظریے‘‘ کی حمایت کی جس کی بنیاد پر۱۹۴۷ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ کچھ ماہ قبل انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کے کنونشن میں کہا:’’ہمارے آبا و اجداد کا ماننا تھا کہ ہم ہندوؤں سے زندگی کے ہر پہلو میں مختلف ہیں۔ ہمارا مذہب مختلف ہے، ہماری روایات مختلف ہیں، ہمارے رسم و رواج مختلف ہیں، ہمارے خیالات مختلف ہیں، ہمارے مقاصد مختلف ہیں۔ یہی دو قومی نظریے کی بنیاد تھی، جو اس عقیدے پر رکھی گئی کہ ہم دو قومیں ہیں، ایک نہیں۔ ‘‘
It’s very odd that Kash Patel came by for a handshake. https://t.co/aG9nj1NiHD
— Christopher Clary (@clary_co) September 28, 2025
ہندوستان -پاکستان کشیدگیاں
اس کے علاوہ اپریل میں پہلگام دہشت گرد حملے نے ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا، جہاں ہندوستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنے موقف کو سخت کیا اور پاکستان پر حملے میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات عائد کئے۔ اس کے بعد مئی میں ہندوستان نے ’’آپریشن سندور‘‘ کے نام سے جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کے ڈھانچوں کو نشانہ بنایا۔
نیٹیزنز کا ردعمل: کیش پٹیل، – عاصم منیر مصافحہ
ایک صارف نے لکھا: ’’یہ بہت عجیب ہے کہ کش پٹیل مصافحے کیلئے آئے۔ ‘‘ البانی یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے اسوسی ایٹ پروفیسر کرسٹوفر کلاری نے ’ایکس‘ پر تبصرہ کیا۔ کسی اور نے جواب دیا: ’’یہ عجیب نہیں، یہ سارا اجلاس ہندوستان کو پیغام دینے کیلئے تھا اور یہ جان بوجھ کر کیا گیا۔ لیکن ہمیں پرواہ نہیں کہ امریکہ کیا کرتا ہے۔ ‘‘ ایک اور نے لکھا: ’’یہ پاکستان کی سفارت کاری کی برتری کو ظاہر کرتا ہے۔ ہندوستان کیلئے مشکل وقت ہے، اگر پہلے سے واضح نہ تھا!‘‘چوتھے شخص نے کہا: ’’کش پٹیل کا یہ رویہ دراصل امریکی سیاست اور ٹرمپ انتظامیہ کے تحت برصغیر میں اس کی خارجہ پالیسی کا عکس ہے، جس کا مقصد پاکستان کو کریپٹو اور ریئر ارتھ منرلز کیلئے خوش کرنا ہے۔ ‘‘
From ‘Jai Shree Krishna’ to ‘Valhalla’ and now Warmly Shaking Hands with
— BRADDY (@braddy_Codie05) September 28, 2025
J!#@d! like Asim Munir who Openly Calls for J!H@D against Hindus.
Kash Patel’s Transition is just Reflection of the U.S Politics and its Foreign Policy in Sub-Continent under the Trump Administration.… pic.twitter.com/NveZdgx4o8
مزید ایک تبصرے میں کہا گیا کہ پٹیل کے پاس شاید کوئی چارہ نہ ہو: ’’اگر وہ ایف بی آئی کے سربراہ کے طور پر اپنی نوکری برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں وہی کرنا ہوگا جو ٹرمپ کہیں گے۔ ‘‘دوسری جانب، کچھ صارفین نے مذہب کو بیچ میں لانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’ان کے ذاتی عقیدے کو حکومت کے مؤقف اور پالیسی کے ساتھ مت ملائیں۔ ‘‘ ایک اور نے کہا: ’’عاصم منیر سے ہاتھ ملانے میں کیا برائی ہے؟ وہ ایک امریکی شہری ہیں اور اپنی حکومت کیلئے کام کرتے ہیں۔ انہیں وہی کرنا ہوگا جو ان کی حکومت کے مفاد میں ہو۔ چاہے امریکہ کو پاکستان سے کچھ نہ بھی ملے، تب بھی وہ دو طرفہ اجلاس کے دوران ہاتھ ملائیں گے۔ ‘‘