Inquilab Logo

انسانی حقوق کی تنظیمیں شیرین ابو عاقلہ کو انصاف دلانے کیلئے پرعزم

Updated: July 20, 2023, 10:29 AM IST | Washington

۶۰؍ اہم اداروں نے شیرین ابو عاقلہ کو انصاف دلانے کیلئے امریکی کا نگریس کو خط لکھا ۔ ’ دی جسٹس فار شیریں ابوعاقلہ ایکٹ‘ کی منظوری کی درخواست کی گئی ، اسرائیل کی دفاعی امداد روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ۔ مقتولہ کے خاندان کے مطابق جب کوئی امریکی شہری کسی غیر ملکی فوجی کے ہاتھو ں مارا جائے تو کم ازکم اس کے خاندان کو انصاف کیلئے جد و جہد نہیں کر نی چاہئے

Tributes are being paid to Shireen Abu Akleh
شیرین ابو عاقلہ کو خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔

امریکہ کے انسانی حقوق کے گروپوں نے  امریکی کانگریس کو ایک خط لکھ کر اسرائیلی فو ج کی گولیوں کا نشانہ بننے والی شیرین  ابو عاقلہ کیلئےا نصاف کا مطالبہ کیا ہے اور انہیں انصاف دلانے کا عزم ظاہر کیا ۔  یاد رہےکہ  گزشتہ برس مئی میں مغربی کنارے سے براہ راست رپورٹنگ کے دوران  اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں ان کا قتل کر دیا گیاتھا ۔ 
 انسانی حقوق کی تنظیموں کا خط 
  قطر کے نشریاتی ادارے ’ الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق  انسانی حقو ق اور صحافتی آزادی کیلئے سرگرم گروپوں نے  امریکی کانگریس کو ایک خط کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ الجزیرہ سے وابستہ معروف صحافی  شیرین ابو عاقلہ  کے قتل کی تفتیش کرے اور قانون ساز اپنی رپورٹ میں بتائیں کہ شیریں ابو عاقلہ کا قتل کیسے ہوا ؟
 یہ خط اس موقع پر لکھا گیا 
 منگل کو  امریکی کانگر یس کے اراکین کو یہ خط ایسے وقت میں لکھا گیا  ہے جب  اسرائیل کے صدر اسحاق  ہر زوگ  امریکہ کے دورےپر ہیں۔  ۶۰؍ معروف تنظیموں نےالجزیرہ سے وابستہ صحافی اور  امریکہ کی اس شہری کیلئے انصاف کا مطالبہ کیا  ہے جنہیں گزشتہ برس جنین میں چھاپے کی  براہ راست رپورٹنگ کے دوران قتل کردیا گیا تھا ۔ یادر ہے کہ شیرین  ابو عاقلہ  اپنی شاندا رپورٹنگ اور بےلاگ کیلئے مشہور تھیں۔  
’دی جسٹس فار  شیرین ابوعاقلہ  ایکٹ‘
  امریکی کانگریس  کے  سینئر رکن آندرے کارسن  نے اس   قانون سازی  کے عمل کو متعارف کروایا جسے گزشتہ مئی  میں شیرین کے قتل کی پہلی  برسی پر ’ انہوں نے ’دی جسٹس فار  شیرین  ابوعاقلہ  ایکٹ ‘ کہا تھا ۔
   مذکورہ خط میں کہا گیا ہے ، ’’  شیرین ابو عاقلہ  معروف صحافی تھیں ، انہوں نے  قابض اسرائیلی فوج کے ظلم سےپریشان فلسطینیوں کو آوازدی ، انہیں  حوصلہ دیا  اور ان کیلئے انصاف کا مطالبہ کیا۔ ان کاقتل ۱۱؍ مئی ۲۰۲۲ء کو ہوا تھا اور اسرائیلی پو لیس نے ان کی آخری رسومات کے دوران بھی پر تشدد حملے   کئے تھے جو پوری دنیا کیلئے باعث تشویش اور تکلیف دہ تھا۔ ‘‘
ا مریکی حکومت کے رویے پر تشویش 
  خط میں مزید کہا گیا ، ’’ اب تک  امریکی حکومت کی جانب سے  ان کے قتل  پر کوئی، ٹھوس ، ذمہ دار اور واضح ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ ‘‘
  خط پر ان تنظیموں کے دستخط ہیں
 انسانی حقو ق کی تنظیموں کےاس خط  پر اہم  انسانی  حقوق کے  اداروں اور  میڈیاکی آزادی کیلئے سرگرم گروپوں کے دستخط ہیں جن میں  امریکن فرینڈس سروس کمیٹی ( اے ایف ایس سی)، ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکہ ، کمیٹی ٹو پرو ٹکٹ  جرنلسٹس ، ہیومن رائٹس واچ ، آکسفیم امریکہ ،پروجیکٹ آن مڈل ایسٹ ڈیمو کریسی( پی او ایم ای ڈی ) اور رپورٹرس ود آؤٹ بارڈرس  قابل ذکر ہیں۔ 
کانگریس میں منظوری مشکل 
   الجزیرہ کے مطابق ریپبلکن اکثریت والے   ایوان میں  ’ دی جسٹس فار شیرین ایکٹ ‘ کی منظوری مشکل ہے اور اس ایوان میں  ڈیوکریٹس کی بھی ایک بڑی تعداد اسرائیل کی حامی ہے ۔  مذکورہ خط میں معروف ٹی وی رپورٹر اور عالم  عرب میں مقبول صحافی شیرین ابو عاقلہ کے قتل پر انسانی حقوق  کےتحت جوا ہد ہی کا مطالبہ کیا گیا  ہے۔
امریکہ سے   اسرائیل کی امداد روکنے پر زور 
  ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے دیگر گروپوں نے بھی امریکہ سے   اسرائیلی کی امداد روکنے پر زور دیا ۔ یاد رہے کہ  امریکہ اسرائیل کوسالانہ ۳ء۸؍ بلین  ڈالر  بطور امداد  دیتا ہے۔  اس خط میں خاص طور پر اسرائیل کی دفاعی امداد بھی روکنے   کا مطالبہ کیا گیا   ۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی امریکی کانگریس  سے اسی طرح کامطالبہ کیاگیا تھا ۔  اس کی وجہ یہ ہےکہ امریکہ کے قانون کے مطابق واشنگٹن کی جانب سے کسی بھی ایسے ادارے یا ملک کی مدد نہیں کی جاسکتی ہے جو  انسانی حقوق کی خلاف ور زی کررہا ہو  ۔
 اسرائیلی حکام کابے بنیاد دعویٰ اور حقیقت 
 گزشتہ برس اسرائیلی حکام نےیہ بے بنیاد دعویٰ کیا تھا کہ ابو عاقلہ پر ایک مسلح فلسطینی نے حملہ کیا تھا ۔ اس کے کچھ مہینوں بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ شیرین ابوعاقلہ کا قتل ایک اسرائیلی فوجی نے کیا تھا۔  اب تک اسرائیل اسے منظم حملہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہےاور سنگین جرائم کی دفعات تحت اس کی تفتیش بھی نہیں کر رہا ہے، حالانکہ اب تک منظر عام پر آنے والی کئی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس سے وقت شیرین ابوعاقلہ پر حملہ کیا گیا ، اس وقت وہاں کوئی اور لڑائی نہیں ہورہی تھی ،  وہاں صرف شیرین ابوعاقلہ میڈیا سے متعلق ساز و سامان کے ساتھ  موجود تھیں ۔  اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان پر منظم طریقے   سے دانستہ طو پر حملہ کیا گیا تھا۔ 
اب تک امریکہ کا گول مو ل موقف 
  گزشتہ برس  نومبر میں اسرائیلی اور امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ   ایف بی آئی اس کی تفتیش کرے گی لیکن دسمبر میںمحکمۂ انصاف   نے اس کی تصدیق کرنے  اور  یہاں تک کہ اس  پر تبصرہ کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ 
  اس قتل کے ایک ہفتے کے بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہاتھا کہ واشنگٹن اس قتل کی آزدانہ تفتیش پر غور کررہا ہے  لیکن  واشنگٹن نے گزشتہ  بر س اس تجویز کو مستر د کردیا تھا۔  
  اہم رپورٹ پر بائیڈن انتظامیہ کارویہ 
  اس سال کی ابتداءمیں ’یو ایس سیکوریٹی کوآرڈینیٹر فا ر اسرائیل اینڈ دی فلسطین اتھاریٹی‘ ( یو ایس  ایس سی ) نے اس قتل پر کانگریس میں ایک رپورٹ پیش کی تھی۔ ا ب تک جو بائیڈن نے اس رپورٹ کو عام نہیں کیا ہے ۔ گزشتہ دنوں ڈیموکریٹس سینیٹر کرس وان ہولن   نے اس رپورٹ کو شیرین ابوعاقلہ کے قتل سے متعلق انتہائی اہم دستاویز بتایا تھا اور اسے منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انسانی حقوق کے گرو پس نے بھی سینیٹر کی مذکورہ رائے کو اہمیت دی تھی اور اب بھی اس کی تائید کررہےہیں۔ 
 شیرین ابوعاقلہ کے خاندان کا بیان 
     ابو عاقلہ کے خاندان نے ان تمام تنظیموں کا شکریہ اداکیا جنہوں نے خط لکھ کر کانگریس سے  شیرین ابوعاقلہ کیلئے  قانون سازی کا مطالبہ کیا تھا۔ ابو عاقلہ کے خاندان کا کہنا تھا ، ’’ جب کوئی امریکی شہری کسی  غیر ملکی فوجی کے ہاتھو ں مارا جائے تو کم ازکم اس کے خاندان کو انصاف کیلئے جد و جہد نہیں کر نی چاہئے۔‘‘
 تمام اراکین کانگریس سے مطالبہ 
  مقتولہ کا خاندان کہتا ہے، ’’تمام اراکین کانگریس کو ’دی جسٹس فارشیرین ایکٹ ‘کی حمایت کرنی چاہئے۔  اس کے ذریعہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اب کسی اور صحافی کے خاندان کے ساتھ  ویسا نہیں ہو جو ہمارے ساتھ ہو ا۔ ‘‘
 اسرائیلی فوج نےایک معمر کی بھی جان لے لی 
    گزشتہ  دوسال میں شیرین اسرائیلی مظالم  کانشانہ بننے والی  پہلی امریکی  ہیں۔  بعد ازاں رواں برس جنوری میںاسرائیلی فوج کی اذیت رسانیوں کے نتیجے میں  حرکت قلب  بند ہونے کے سبب  ۸۰؍سالہ عمر اسدلقمۂ اجل بن گئے تھے ۔ تل ابیب نے گزشتہ ماہ اس پر کہاتھا کہ کوئی بھی اسرائیلی فوجی ان کی موت کا ذمہ دار نہیںہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK